ھارت کے مشرقی حصے میں اس ہاتھی کو مارنے کی تیاری کی جا رہی ہے جو گذشتہ کئی مہینوں کے دوران 15 لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے۔بھارتی ٹی وی کے مطابق عہدے داروں نے کہاکہ ہماری اولین کوشش ہاتھی کو پکڑ نا ہے۔ اگر وہ کسی بھی طرح ہمارے کنٹرول میں نہ آیا تو پھر آخری چارہ کار کے طور پر اسے ہلاک کر دیا جائے گا۔گزشتہ روز بھی ہاتھی نے ایک اور شخص کو اپنے پاؤں تلے کچل کر ہلاک کر دیا۔ جس کے بعد ریاست جھاڑکھنڈ میں جنگلی حیات کی نگرانی کرنے والے عہدے
دار اور شکاری اکھٹے ہوئے اور اسے گھیرے میں لے کر پکڑ نے یا مارنے کے پہلوؤں پر صلاح مشورہ کیا۔ریاست جھاڑ کھنڈ کے محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کے سربراہ ایل آر سنگھ نے بتایا کہ بدمست ہاتھی نے ریاست جھاڑکھنڈ کے حدود میں داخل ہونے سے پہلے ریاست بہار میں 4 لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔وہ مارچ میں جھاڑکھنڈ میں داخل ہوا جس کے بعد سے وہ 11 افراد کو اپنے پاؤں کے نیچے کچل کر مار چکا ہے۔سنگھ نے بتایا کہ بستیوں اور دیہاتوں میں رہنے والے ہاتھی سے خوف زدہ ہیں خاص طور پر پحاریا قبیلے کے لوگ جو اس پہاڑی علاقے کے قریب رہتے ہیں جہاں ان دنوں ہاتھی کو دیکھا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے لازمی طور پر کچھ کرنے کے ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ماہرین اور شکاریوں پر مشتمل ایک ٹیم بنائی ہے۔ ہم اس مسئلے کی مختلف پہلوؤں پر سوچ بچار کر رہے ہیں۔ ایک حل تو یہ ہے کہ اسے گولی مار دی جائے ۔ لیکن یہ قدم آخری چارہ کار کے طور پر اٹھایا جائے گا۔ ہم ایک دو دن میں کسی فیصلے پر پہنچ جائیں گے۔نقصان پہنچانے والے ہاتھی، عموماً ایسے ہاتھی ہوتے ہیں جو اپنے گروہ سے بچھڑ جاتے ہیں اور وہ مٹر گشت کرتے ہوئے آبادیوں میں گھس کر لوگوں کو ہلاک کرنے لگتے ہیں۔جنگلات اور جنگلی حیات کے سربراہ نے سنگھ نے خبررساں ادارے کو بتایا کہ ریاست جھاڑکھنڈ میں ہر سال لگ بھگ 60 افراد کو ہاتھی اپنے پاؤں تلے روند کر مار دیتے ہیں۔ان کا کہتا تھا کہ یہ تعداد بھارت میں جانوروں کا نشانہ بن کر ہلاک ہونے والوں کے مقابلے میں بہت معمولی ہے۔ بھارت میں پچھلے تین سال کے دوران ایک اندازے کے مطابق 11 سو افراد ہاتھیوں، شیر اور چیتوں کا نشانہ بن مارے جا چکے ہیں۔ماحولیات کی وزارت کا کہنا تھا کہ بھارت میں ہر روز ایک شخص کمیاب جنگلی درندوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ جب کہ ہلاک ہونے والوں کی اکثریت ہاتھیوں کے پاؤں تلے کچلی جاتی ہے۔ایل آر سنگھ نے بتایا کہ ہاتھیوں اور انسانوں کے درمیان ایک دوسرے کو ہلاک کرنے کے رجحان میں اس وجہ سے بھی اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ لوگوں نے اپنی بستیاں بسانے کے لیے زیادہ تر جنگل صاف کر دیے ہیں۔