(5-اگست-2017)نازنین کے بدن پر جیسے چونٹیاں سی رینگ رہی تھیں .اس نے بے چین ہوکر کروٹ بدلی .کمرے میں مکمل اندھیرا ہونے کے باوجود اسنے آنکھوں کو سختی سے بند کر رکھا تھا .آدھا ادھورا سا خواب اسکا پورا چین لوٹ گیا تھا .اسکا تنفس تیز ہورہا تھا سخت سردی کے باوجود بدن پسینے میں شرابور تھا اسنے کمبل کو مزید اچھی طرح سے خود کو چھپانے کی وہ کوشش سردی کی بنا پر کم اور حیا کی وجہ سے زیادہ تھی .
بے اختیار اس کا ہاتھ بیڈ پر دائیں کو طرف کو پھیلا اس سعی لاحاصل پر اسکا دل مچل کر زور سے دھڑکا اور تنہائ کے شدید احساس کے ساتھ ہی اندر کا لاوا ابل کر اسکی آنکھوں سے بہنے لگا . سرفراز کی موت کو دو سال ہوچکے تھے .اور ان کی شادی کو بھی تقریبا’ اتنا ہی عرصہ .صرف تین ماہ کی دلہن ہی تو تھی جب ایک ایکسیڈنٹ میں وہ اسے داغ مفارقت دے گیا. ان کی شادی کسی تہلکہ خیز عشق کا انجام تھی اور نہ ہی وہ کسی بھی طرح لو میرج کہلائی جاسکتی تھی .لیکن ایسے کسی بھی نمائشی نام نہاد محبت کے بغیر بھی انہوں نے ایک دوسرے کو بخوبی قبول کیا تھا . سرفراز کی موت فقط ایک رشتہ کا اختتام ہوتی .ایک دوست ہمدرد یا ساتھی کا کھونا ہوتا تو وہ کسی طور صبر کر بھی لیتی .لیکن یہ وہ سانحہ تھا جو ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے مزید تڑپا دیتا اسکی اذیت فطرت کی دین تھی . بھوک سب کو لگتی ہے پیاس کو سبھی محسوس کرتے ہیں .دیگر تمام ضروریات بھی سب ہی سمجھتے ہیں .لیکن ایک بھوک اور بھی تو ہوتی ہے .سب ہی تو جانتے ہیں اسے .پھر جان کر انجان کیوں رہتے ہیں ؟ اکثر یہ سوال اس کے من میں اور شدت سے مچلتا .جب وہ کسی تقریب وغیرہ میں عورتوں کی باتیں سنتی . شروع میں لوگوں نے اسے منحوس کہا جو اپنے شوہر کو کھا گئی تھی .سسرال والوں نے گھر سے نکال باہر کیا جیسے کسی بلا کو دور کیا جاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے رویے شرافت اور حیا نے لوگوں کو اپنی راۓ بدلنے پر مجبور کردیا اب لوگوں نے اپنے بچے بھی اس کے پاس قران مجید پڑھنے بھیجنا شروع کردے تھے .شوہر کے انتقال کے بعد سے جسطرح اس نے خود کو اور گھر کو سنبھالا تھا سب ہی تعریف کیا کرتے تھے اور اسکی مثال دیا کرتے تھے .لیکن پانی کتنا بھی زیادہ اور میٹھا کیوں نہ ہو اس سے کھانے کی بھوک تو نہیں مٹتی . درست کیا وہ سارا دن لوگوں کی تعریف سننتے ہوۓ رات بھر وجود کی آگ میں جھلستی رہتی .اور شاید اب یہی اسکا مقدر تھا .یہ خیال آتے ہی گھبرا کر اسنے اپنے سر کو زور سے نفی میں ہلایا . گھبراہٹ کی اس گھڑی میں اچانک اسے ندیم کا خیال آیا .ندیم اسے شادی سے پہلے سے پسند کرتا تھا .لیکن خاندانی تنازعات کی وجہ سے اسکا رشتہ رد کردیا گیا .اور اب بھی وہ سرفراز کی موت کے بعد نازنین کو پسند کرتا تھا .اور یہ نازنین کا صرف خیال نہیں تھا بلکہ ندیم کے اظہار کی حقیقت تھی جو وہ پہلے دبے الفاظ میں اور اب کچھ دنوں سے کھل کر کر رہا تھا . لیکن ندیم کے رشتے کی دوبارہ درخواست کو پہلے سے بھی زیادہ شدت سے رد کردیا گیا .خاندان کے بڑوں نے اسے خاندان کی بے عزتی کہا اور ندیم کے گھر والوں نے اسے ندیم کا پاگل پن . نازنین کے بھائی نے تو بندوق تک اٹھالی اور کہا اگر آئندہ ایسی کوئی بات بھی کی گئی تو وہ اس بندے کو گولی مار دیگا .روٹی کی کوئی کمی نہیں ان کے گھر. اس کی بہن گھر میں ہی عزت کی زندگی گزار سکتی ہے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی ..نازنین نے ہڑبڑا کر کمرے کی لائٹ آن کردی .لیکن اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اس نے اسے جلدی سے دوبارہ بند کردیا .وہ دستک ندیم کا اشارہ تھا .نازنین نے زور زور سے دھڑکتے دل کے ساتھ کمرے پر افسردہ الوداعی نگاہ ڈالی .اور قدم دہلیز کی طرف بڑھادیے . اچانک باہر شور اٹھا ایک فائر کے ساتھ ہی ندیم کی چیخ سنائی دی .وہ اپنی جگہ منجمد ہوگئی .کمرے کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ کھلا . بھائی نے لال انگار آنکھوں سے نفرت اور غصہ کے ساتھ بہن کے ہاتھوں میں بندھی گھٹڑی کو دیکھا قہر غضب میں اس کی طرف تھوکا اور چیخ کر فاحشہ کہتے ہوۓ گولی چلادی . کمرے میں خون بکھرا ہوا تھا .غیرت نے فاحشہ کے ساتھ فحاشی کا قتل کردیا تھا .لیکن فطرت ابھی بھی خون آلود کمرے کی اداسی میں کھڑی مسکرا رہی تھی .