اس سے پہلے چار دفعہ مختلف گھروں کے لڑکے اس رشتے سے رد کر چکے تھے یہ پانچویں بار تھی وہ اپنی دوست کو میسج پر بتا رہی تھی کے آج پھر لڑکے والے دیکھنے آ رہے ہیں دعا کرنا انہیں میں پسند آ جاؤں مجھ سے اب بابا کے چہرے پر جھریاں نہیں دیکھی جاتی ہیں نہ جانے انہوں نے ایسا کیا گناہ کیا تھا کے میں ان پر بوجھ بنی ہوئی ہوں۔
اب تو ماں کے ہاتھ بھی کانپتے ہیں اس مشین کو چلا چلا کر انہوں نے آج تک میرے لیے بہت کچھ بنایا لیکن قسمت پتہ نہیں کیا امتحان لے رہی ہے.شام کے وقت وہ اپنے کمرے میں بیٹھی یہی دعا مانگ رہی تھی کے میرے بابا کی عزت بچ جائے کہیں وہ پھر سے یہی نہ سوچیں کے بیٹی کیا پیدا کر لی عذاب میں پڑ گئے ہم تو۔اور وہی ہوا آنے والوں نے نہیں پوچھا کے:آپ کی بیٹی نماز پڑھتی ہے یا نہیں..!انہوں نے نہیں پوچھا کے کیا دین کے لیے کبھی کسی مدرسے میں گئی یا نہیں…!یا کتنا پڑھا دین کا…!انہوں نے نہیں پوچھا دنیا کا کتنا پڑھا سکول کتنا پڑھا…!. انہوں نے نہیں پوچھا کے بیٹی کیا دو وقت کا کھانا بنا کر اپنے شوہر کو اور ہمیں دے سکتی ہے یا نہیں…!بلکہ صاحبزادے جو کے ایک طرف کرسی پر ٹانگ رکھے بیٹھے تھے انہوں نے ماں کو اشارہ کیا ماں نے بھی کہہ دیا بیٹی کو بلایے…اندر سے لڑکی کو لے کر اُس کی ماں باہر آئی یہاں شہزادہ چارلس صاحب منہ اٹھایا اور باہر چلے گئے…لڑکے کی ماں پیچھے گئی بیٹا کیا بات ہے یہاں اندر لڑکی اور اس کے ماں باپ سن رہے ہیں…..مجھے نہیں کرنی اس سے شادی شکل تو دیکھیں اس کی یہ بھی کوئی لڑکی ہے.لڑکے کا والد معزرت کرتا ہوا وہاں سے اٹھا اور اِدھر لڑکی وہاں سے اٹھی اور بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر دیا.تین دن کمرے کے ایک کونے میں وہ گھٹ گھٹ کر مرتی رہی اور آخر کار چوتھے دن گولیوں کا ایک پیکٹ اپنے اندر ڈال کر وہ اس معاشرے سے خود کو الگ کرنے کے لیے سکون کی نیند تلاش کرنے چلی گئی.
اب میرا سوال ہے کے کیا اسے اُس کے حسن نے مارا ہے؟یا اُس پانچویں شخص نے مارا ہے.؟یا اُن تمام لوگوں نے جو اس سے پہلے آ چکے تھے.؟میں بتاتا ہوں…..! لعنت بھیجتا ہوں میں اس گندے معاشرے پر جس نے اسے مارا ہے لوگوں کی بیٹیوں کو ایسے دیکھنے جاتے ہو جیسے کے کسی باغ کا بیوپاری جاتا ہے باغ اچھا لگا تو ٹھیک ورنہ کوئی اور لے لوں گا.آپ میں ہم وہ تکلیف نہیں محسوس کر سکتے ہیں جو ایک باپ کے سینے میں لگی ہوتی ہے ایک ماں کا کلیجہ جب پھٹ رہا ہوتا ہے اور جب اُس کی آنکھیں خون بہا رہی ہوتی ہیں.جب کسی کی بہن بیٹی کو دیکھنے جاؤ تو اسے شکل سے نہ دیکھو… بلکہ والدین سے پوچھو کے کیا وہ دین جانتی ہے… کیا وہ میری ماں کو ماں سمجھنے کے قابل ہے…کیا وہ دو وقت کا کھانا مجھے اور میرے ماں باپ کو دے سکتی ہے.اور اگر حسن چاہیے ہے تو میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہے جاؤ مغرب میں وہاں حسن ہے اور وہاں حسن ملے گا بھی باقی حیا شرم دین اُن کے قریب سے بھی نہیں گزرا ہو گا اور ویسے بھی تمہیں کون سا حیا شرم یا دین چاہیے ہے۔زرا سوچو گھر میں جو بہن ہے اسے پانچ دفعہ کوئی دیکھنے آئے اور پانچویں دفعہ بھی کہے نہیں مجھے نہیں یہ پسند تو تم پر قیامت گزرتی ہے اور تمہیں یاد بھی ہے خود کتنی بیٹیوں پر قیامت گرا چکے ہو۔یقین مانیے ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا کے کہیں ہماری وجہ سے کسی گھر میں کتنا بڑا فساد کتنا بڑا دُکھ جنم لے چُکا ہے۔حُسن نہ دیکھیے کسی کی عزت دیکھیے. کیا فائدہ اگر حُسن ملے اور عزت نہ ہو بے عزتے لوگ ہوں حیا نہ ہو دین نہ ہو.. لعنت نہ بھیجوں میں ایسے لوگوں پر۔اور کیا ہی زندگی ہو کے سادہ چہرہ ہی کیوں نہ ہو دین ہو عزت دار لوگ ہوں حیا ہو اور دین ہو.یہ بیٹیاں اپنی خوشی سے زیادہ اپنے باپ کے دُکھ میں مر رہی ہوتی ہیں کے کہیں میرا والد یا میری والدہ مجھ سے مایوس تو نہیںلوگوں میں حیا شرم اور دین دیکھو…حسن نہیں..!!یہ سچائی اگر کسی کو بُری لگی ہو تو معزرت وسلام ۔