یمن میں ایک چالیس سالہ شخص سے بیاہی جانے والی کم سن دلھن سہاگ رات زیادہ خون بہ جانے سے موت کے منہ میں چلی گئی ہے۔
یمن کے انسانی حقوق کے ایک علمبردار عروہ عثمان نے بتایا ہے کہ شمال مغربی صوبے حجاح کے قصبے میدی میں اس آٹھ سالہ کم سن بچی کی اپنے سے پانچ گنا بڑی عمر کے شخص کے ساتھ گذشتہ ہفتے ہی شادی ہوئی تھی۔ اس کا نام صرف راون بتایا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سہاگ رات ادھیڑ عمر خاوند سے ملنے کے بعد اس بچی کا خون بہنا شروع ہوگیا تھا۔ اسے تشویش حالت میں ایک کلینک لے جایا گیا لیکن ڈاکٹر اس کی جان بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
اس کم سن بچی کی اس طرح الم ناک موت کے باوجود حکام نے اس کے خاندان یا خاوند کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں کی بلکہ صوبے کے ایک مقامی سکیورٹی عہدے دار نے اس واقعے کا سرے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا کچھ رونما نہیں ہوا۔
لیکن میدی کے دو مکنیوں نے رائیٹرز کے رابطہ کرنے پر اس واقعہ کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ مقامی قبائلی عمائدین نے اس واقعے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے اور انھوں نے اس خبر کو منظرعام پر لانے والے ایک مقامی صحافی کو دھمکیاں دی ہیں۔
اس بچی کی الم ناک موت کے بعد یمن میں ایک مرتبہ پھر کم عمری کی شادیوں کی قباحتوں پر بحث شروع ہوگئی ہے اورایسی شادیوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ یمن میں بہت سے غریب والدین اپنی بچیوں کو کم عمری ہی میں بیاہ دیتے ہیں اور اس طرح وہ ان کی پرورش پر اٹھنے والے اخراجات اور جہیز وغیرہ سے بچ جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنوری میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق عرب دنیا کے اس سب سے غریب ملک کی دو کروڑ چالیس لاکھ آبادی میں سے ایک کروڑ پانچ لاکھ کو مناسب خوراک دستیاب نہیں اور ایک کروڑ تیس لاکھ کو پینے کے صاف پانی اور حفظان صحت کی بنیادی سہولتیں حاصل نہیں ہیں۔
قبل ازیں دسمبر2011ء میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے یمنی حکومت سے اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں پر پابندی عاید کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ کم عمری کی شادیوں سے بچیاں تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں اور ان کی صحت بھی برباد ہوجاتی ہے۔
ایچ آر ڈبلیو نے اقوام متحدہ اور یمنی حکومت کے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا تھا کہ 14 فی صد یمنی بچیوں کی شادیاں پندرہ سال سے بھی کم عمری میں ہوجاتی ہیں۔ 52 فی صد کی اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے تک شادی کردی جاتی ہے اور اس طرح وہ اپنی بلوغت کی عمر میں اسکول کی تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔