جنرل ضیاالحق کے دورحکومت پر تنقید کرنا ایک فیشن بن گیاہے . کوئی یہ تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں کہ ان سے غلطی سے بھی کوئی اچھا کام ہو سکتا تھا2006ءمیں لکھے جانے والے ایک کالم میں صولت رضا ضیاالحق کے متعلق اپنی شہادت ریکارڈ کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”ان کا جنازہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد حاضرین کی تعداد کے حساب سے سب سے بڑا جنازہ تھا. اکثر سامعین اور ناظرین کو وہ رقت آمیز مناظر آج بھی یاد ہوں گےجنہیں پاکستان ٹیلی ویڑن پر آنکھوں دیکھا حال سنانے والے نامور تبصرہ نگاروں اظہر لودھی اور حسین حقانی کی ہچکیوں اور آہوں نے ”حیات جاودانی عطا کر دی.
ڈیلی پاکستان میں شائع ہونے والےڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کے کالم میں ضیاالحق کی شخصیت کا تذکرہ کرتے لکھا گیا ہے کہ پاکستان کے نامور صحافی محمد صلاح الدین ایک مرتبہ محمد ضیاالحق سے ملاقات کے لئے تشریف لائے.ہم دونوں آرمی ہاوس کے سادہ سے پورچ میں سرکاری گاڑی میں بیٹھ گئے تو ڈرائیور نے بتایا کہ کار بند ہو گئی ہے شاید دھکے کی ضرورت ہے. میں فوراً نیچے اترا. دو تین فوجی جوان بھی لپکے. لیکن ہم سب سے پہلے صدر، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور چیف آف آرمی سٹاف کا ہاتھ اپنے” نکتہ چین“ کی کار پر تھا. گاڑی فوراً سٹارٹ ہو گئی. راستے میں محمد صلاح الدین نے کہا کہ یہ شخص اپنے رویئے سے دوسروں کو ختم کر دیتا ہے.
اسلم ڈوگر کا مزید کہنا ہے کہ وہ آئی ایس پی آر کی جانب سے ان کے ہمراہ تھے. تقریباُُایک گھنٹہ ملاقات کے بعد دونوں کمرے سے باہر نکلے تو میں بھی اے ڈی سی کے دفتر سے نکل کر ساتھ کھڑا ہو گیا. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ محمد صلاح الدین فوری انتخابات کےلئے دلائل دے رہے تھے اور جواب میں ایک دل آویز مسکراہٹ تھی. محمد صلاح الدین کے چند جملے تلخ بھی تھے لیکن جنرل محمد ضیاالحق کمال مہربانی سے پی گئے.