اکثر اوقات انسان زہنی بیمار اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور زندگی سے تنگ آ کر اس کے زہن میں عجیب عجیب خیال آ تے ہیں یہ بالکل فطری بات ہے کہ ہم کبھی کبھار ذہنی طور پر اداسی یا مایوسی محسوس کریں مگر یہ چڑچڑا پن روزانہ طاری رہے تو یہ ڈپریشن جیسے مرض کی علامت ہوسکتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر کوئی شخص ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے بعد اس کی شناخت کیسے کرے؟درحقیقت ڈپریشن کی چند مخصوص علامات ہوتی ہیں جو اکثر افراد پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں اور زیادہ سنگین نوعیت کے عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ڈپریشن کی شدت اداسی یا خودترسی سے ہٹ کر بھی مختلف علامات سے جڑی ہوتی ہے جو کم از کم مسلسل 2 ہفتے تک برقرار رہ سکتی ہیں اور اس کی وجہ سے روزمرہ کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ان علامات کو جاننا یقیناً آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ ڈپریشن کی مرکزی علامت مزاج میں اداسی اور زندگی میں دلچسپی کھو دینا ہے۔ ایسی سرگرمیاں جو پہلے بہت پرلطف لگتی تھیں، ان میں کشش ختم ہوجاتی ہے، مریضوں میں پچھتاوے یا بے قدرتی، امید کھودینے اور موت یا خودکشی کے خیال ابھر سکتے ہیں۔جسمانی علامات ،تھکاوٹ اور جسمانی توانائی میں کمی۔بے خوابی، خصوصاً علی الصبح جاگنا۔بہت زیادہ سونا۔مسلسل درد، سردرد، مسلز اکڑنا یا نظام ہاضمہ کے مسائل جن میں علاج سے بھی زیادہ ریلیف نہ ملے۔ڈپریشن سے طبی امراض کی شدت بھی زیادہ محسوس ہونے لگتی ہے۔کھانے کی خواہش میں تبدیلی یا وزن میں کمی بیشی بھی ڈپریشن کی ایک نمایاں نشانی ہے، کچھ مریضوں میں کھانے کی خواہش بڑھ سکتی ہے جبکہ دیگر کے لیے کچھ بھی کھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے افراد میں بہت زیادہ وزن کم یا بڑھ جانے کا تجربہ بھی سامنے آسکتا ہے۔اگر علاج نہ کرایا جائے تو جسمانی اور جذباتی مسائل ملازمت، مشغلوں اور پیاروں سے تعلق کو تباہ کرسکتے ہیں۔ ڈپریشن کے شکار افراد کو اکثر توجہ مرکوز کرنے اور فیصلے کرنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے،
وہ اپنی پسندیدہ سرگرمیوں سے منہ موڑ لیتے ہیں جبکہ سنگین کیسز میں ڈپریشن جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔ڈپریشن کے شکار افراد میں اقدام خودکشی کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، اس کی انتباہی نشانیاں موت یا خودکشی کے بارے میں بات کرنا، لوگوں کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں یا جارحانہ یا خطرے مول لینے والے رویے کا اظہار قابل ذکر ہیں۔کن لوگوں میں خطرہ ہوتا ہے؟کسی بھی فرد میں ڈپریشن کا مرض سامنے آسکتا ہے، مگر بیشتر ماہرین کا ماننا ہے کہ اس حوالے سے جینز بھی کردار ادا کرتے ہیں، والدین یا بہن بھائیوں میں اس مرض کی موجودگی آپ میں بھی اس کا خطرہ بڑھا سکتی ہے، مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس کا امکان دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔طبی ماہرین اس بارے میں واضح نہیں کہ ڈپریشن کی حقیقی وجوہات کیا ہیں مگر ان کے خیال میں دماغی ساخت اور کیمیائی افعال میں تبدیلیاں آنا اس کی وجہ ہوسکتی ہے، مزاج کو ریگولیٹ کرنے والے دماغی سرکٹس ڈپریشن کے دوران زیادہ موثر نہیں رہتے، ڈپریشن کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ اعصابی خلیات کے درمیان رابطے کو بہتر بناتی ہیں اور انہیں معمول پر لانے میں مدد دیتی ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ کسی پیارے کو کھو دینے سے بھی ڈپریشن کا مرض لاحق ہوسکتا ہے،
اس کے علاوہ مخصوص ادویات، الکحل، منشیات، ہارمونز میں تبدیلیاں اور موسموں میں تبدیلی سے بھی ایسا ہوسکتا ہے۔اگر آپ کا مزاج موسم سے مطابقت رکھتا ہے یعنی گرمیوں سے خوش باش اور سردیوں میں اداس، تو یہ ڈپریشن کی ایک قسم ہوسکتی ہے جسے سیزنل ڈپریشن یا سیڈ بھی کہا جاتا ہے، خزاں کے اختتام اور سردیوں کے آغاز سے یہ سامنا آسکتا ہے اور ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں 3 سے 20 فیصد افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ بچے کی پیدائش کے بعد ہر 4 میں سے ایک ماں میں ڈپریشن کا امکان ہوتا ہے، یعنی مزاج بہت زیادہ خراب رہنے لگتا ہے جسے پوسٹ پارٹم ڈپریشن بھی کہا جاتا ہے اور اس کی علامات بھی ڈپریشن کی علامات جیسی ہی ہوتی ہیں، مگر اس سے بچے کی صحت متاثر ہوسکتی ہے کیونکہ ماں اس کی نگہداشت سے غفلت برتنے لگتی ہے۔بچوں میں ڈپریشن پاکستان میں تو اس حوالے سے اعدادوشمار نہیں، مگر امریکا میں 2 فیصد اسکولوں کے طالبعلم اس سے متاثر ہوتے ہیں جبکہ ہر 10 میں سے ایک نوجوان میں یہ مرض سامنے آتا ہے۔ ایسے بچے یا نوجوانوں میں کھیلنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، دوست بنانا مشکل ہوجاتا ہے
جبکہ تعلیمی کام مکمل نہیں کرپاتے، اس کی علامات میں بالغ افراد میں ڈپریشن جیسی ہی ہوتی ہیں مگر بچوں میں غصہ یا خطرے والے کام زیادہ کرنے جیسی نشانیاں بھی سامنے آسکتی ہیں، بچوں میں عام طور پر اس کی تشخیص کافی مشکل ہوتی ہے۔تشخیص کیسے ہوتی ہے؟ڈپریشن کے حوالے سے کئی لیبارٹری ٹیسٹ تو ہے نہیں تو اس کی درست تشخیص کے لیے طبی ماہرین مریض کی علامات پر انحصار کرتے ہیں، ان سے طبی تاریخ اور ادویات کے استعمال کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کیونکہ اس سے بھی ڈپریشن کی علامات کے بارے میں جاننے میں مدد ملتی ہے۔ مزاج میں اتار چڑھاؤ، رویوں اور روزمرہ کی سرگرمیوں پر تبادلہ خیال کرکے بھی اس کی شدت اور قسم کو جاننے میں مدد ملتی ہے، کیونکہ اسی سے مؤثر علاج کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس سیکشن میں ضرور کریں