تاریخ میں دنیا کے بہت سے مذہبی عقائد اور سماج میں ختنہ کا رواج تھا۔قدیم مصر میں بھی ختنے کیے جانے کی روایت تھی۔ اور یہ اتنی زیادہ تھی کہ بغیر ختنے والے عضو تناسل پر لوگ حیرت کرتے تھے۔اس بارے میں اتنا معلوم ہے کہ مصر کے فوجی اپنے قبضے میں آنے والے لیبیائي مردوں کو اپنے گھر لے جاتے تھے تاکہ ان کے رشتہ دار بھی ان کی شرمگاہ کو دیکھ سکیں۔قدیم مصر میں صحت کی دیکھ بھال حکومت کے کنٹرول میں تھی۔
مصر میں نسوانی ختنوں کے لیے سخت تر سزائیں:
مصری حکام عورتوں کے زبردستی ختنے کروانے کی سزا میں اضافہ کر رہے ہیں۔اس سے قبل اس جرم کے مرتکب افراد کی سزا تین ماہ سے لے کر تین سال کے درمیان رہی ہے۔ اب کابینہ نے ایک نئے قانون کے منصوبے کی منظوری دی ہے جس کے تحت اس جرم کی سزا پانچ سے سات سال تک ہو گی اور اگر اس سے متاثرہ خاتون ہلاک ہو جائے یا اس میں جسمانی نقص واقع ہو جائے تو سزا بڑھائی بھی جا سکتی ہے۔ مصر میں نسوانی ختنے یا ایف جی ایم 2008 سے خلافِ قانون ہیں، لیکن یہ رسم اب بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ اس کے دوران لڑکیوں کے بیرونی جنسی اعضا کاٹ کر الگ کر دیے جاتے ہیں اور بظاہر اس کا مقصد خواتین کی شہوانیت کو قابو میں لانا ہے۔ یہ رسم افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے بعض ملکوں میں عام ہے اور مسلمان اور عیسائی دونوں اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ مئی میں ایک مصری لڑکی نسوانی ختنے کے بعد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث ہلاک ہو گئی تھی جس کے بعد اقوامِ متحدہ نے مصر پر زور دیا تھا کہ وہ اس رسم کے خلاف سخت کارروائی کرے۔