عوام کی امید وں پر بھر پور طریقے سے پانی پھر چکا ہے ۔ تبدیلی کے نام ووٹ تو ہم نے دیا تھا لیکن اس کا نتیجہ غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ روئف کلاسرا نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ایک ہفتہ بجلی قیمت بڑھا دو۔اگلے ہفتے گیس۔ پھر پٹرول اور ڈیزل کی باری۔پھر پندرہ دن بعد بجلی کی قمیت کی باری اور پھر گیس اور پھر— ایک ہی دائرہ ہے جس میں گھوم رہے ہیں-یہ ہے معاشی پلان اور تخلیقی ذہنوں کے کمال۔۔ ہر ہفتے بجلی گیس مزید مہنگی—بس سوشل میڈیا پر سب اچھا نظر انا چائیے۔
وزارت خزانہ کی طرف سے گزشتہ روز جاری کردہ پبلک ڈیٹ مینجمنٹ رسک رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے اختتام تک ملک کے بیرونی قرضے زرمبادلے کے کل ذخائر کے159فیصد تک پہنچ گئے تھے۔تاہم اندرونی قرضوں کے اشاریوں میں بہتری دیکھنے میں آئی اور اس کی وجہ مختصر مدت کے قرضوں کو طویل مدتی قرضوں میں تبدیل کرنا تھا۔ رپورٹ میں جون 2019تک قرضوں کے اعدادو شمار دیئے گئے ہیں جس کے مطابق قرضوں کا حجم32.7ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے جو کہ مجموعی قومی پیداوارکا 84.8فیصد ہے۔
رپورٹ سے طاہر ہوتا ہے کہ وزارت خزانہ وسط مدتی ڈیٹ مینجمنٹ سٹریٹجی 2016-19پر پوری طرح عملدرآمد میں ناکام رہی ہے جس کا ہدف نئے قرضے کے حصول کی لاگت اور رسک کے درمیان توازن قائم کرنا تھا۔ رپورٹ میں تشویشناک امر یہ ہے کہ2018-19میں میچیور ہونے والے پاکستان کے قلیل اور طویل مدتی قرضے بڑھ کر جون 2019 میں زرمبادلہ کے ذخائر کے 158.7فیصد تک پہنچ گئے، پی ٹی آئی کے حکومت سنبھالنے کے وقت یہ شرح صرف 80.6 فیصد تھی۔
وزارت خزانہ کے مطابق فکسڈ ریٹ اندرونی قرضوں کی شرح میں اضافہ ہوا جبکہ بیرونی قرضوں کی شرح میں کمی آئی۔ گزشتہ مالی سال کے دوران وزارت خزانہ کے امکانی واجبات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ جون2018میں یہ واجبات 1.236 ٹریلین روپے تھے جو جون 2019تک 1.555ٹریلین روپے تک پہنچ گئے یعنی ایک سال میں 319ارب روپے یا 25.8فیصد کا اضافہ ہوا۔ہماری تو اللہ سے دعا ہےکہ پاکستان کے لئے بہتری کے فیصلے ہوں