پاکستان کے سیاسی نظام اور اندرونی خانہ سے باخبر رہنے والے لوگوں کے مطابق اس وقت پاکستان کی سیاسی صورتحال اس موڑ پر آ چکی ہے کہ ملک کے اندر پارلیمانی نظام کو کسی وقت بھی لپیٹ کر اس کی جگہ صدارتی نظام کو نافذ کیا جاسکتا ہے اور اس کے لیے وہ سابقہ اور لاحقہ لگایا جائے گا وہ اسلام کا لگایا جائے گا تاکہ لوگ مطمئن رہے لیکن پاکستان کے اندر اب تک جو بھی صدارتی نظام آیا ہے وہ دراصل ایک آمر کے ذریعہ ہے
جن کی پالیسیاں جن کے کیے ہوئے کام آج بھی پاکستانی بھگت رہے ہیں اگر دیکھا جائے تو اس وقت ملک پر جو حکومت کرنے کی میعاد ہے اس میں سب سے زیادہ حکومت کرنے والے یہی ڈکٹیٹر ہے جنہوں نے صدارتی نظام کا نعرہ لگا کر حکومت پر قبضہ کیا اور کئی سال تک اپنی من مانی کرتے رہے پہلی دفعہ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان کے اندر ایک جمہوری حکومت خود ہی جمہوریت کو ختم کرکے اس کی جگہ صدارتی نظام نافذ کر سکتے ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ کوششیں شروع ہوچکی ہے اور اس کے اندر اسٹیبلشمنٹ کا کردار سب سے آگے اور واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان طاقت میں ہونے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کو کنٹرول نہیں کرپارہے تو جب پارلیمانی نظام کو ختم کرکے صدارتی نظام کو لانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ پارٹیاں کہ جو ان کے حق میں ہیں اور اس اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھ جاتی ہے وہ بھی عمران خان کی مخالف ہو جائے گی اور عمران خان کے لیے پھر اور زیادہ مشکلات پیدا ہوجائے گی