حضرتِ سَیِّدُنا صُہَیْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’تم سے پہلے کے لوگوں میں ایک بادشاہ ہواکرتاتھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا، جب وہ بوڑھا ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا: میں بوڑھا ہوگیاہوں ، لہٰذا میرے پاس کسی لڑکے کو بھجواؤتاکہ میں اسے جادو سکھاؤں۔ چنانچہ، بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیج دیا تو وہ اسے سکھانے لگا، لڑکے کے راستے میں ایک راہب رہتا تھا ۔ راہب کی باتیں اسے بہت اچھی لگتیں۔ چنانچہ، وہ اس کے پاس بیٹھتا اور اس کی باتیں سنتا ، جب وہ جادو گر کے پاس دیر سے پہنچتا تو وہ اسے مارتا، لڑکے نے راہب سے شکایت کی تو اس نے کہا : جب جادوگر سے ڈر محسوس کرو تو کہہ دیا کرو کہ مجھے گھر والوں نے روک رکھاتھا اور جب گھر والوں کا خوف ہو تو کہہ دو کہ مجھے جادو گر نے روک رکھا تھا۔ ( چنانچہ یو نہی سلسلہ چلتا رہا)پھر ایک دن لڑکے نے راستے میں ایک بہت بڑا جانور دیکھا جس نے لوگوں کا راستہ روک رکھا تھا تواس نے دل میں کہا :آج معلوم کروں گا کہ جادو گر افضل ہے یا راہب ؟ چنانچہ، اس نے یہ دعا مانگی :اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! اگر راہب کا معاملہ تیرے نزدیک جادو گر کے معاملے سے زیادہ پسندیدہ ہے تو اس جانور کو ہلاک کردے تاکہ لوگ گزر سکیں۔پھر اس نے ایک پتھر پھینکااور اس جانورکو ہلاک کر دیاتو لوگ گزر گئے
، اب اس نے راہب کے پاس آکر واقعہ سنایاتو راہب نے کہا: بیٹا! آج تم مجھ سے افضل ہوگئے ہو، تمہارا معاملہ وہاں تک پہنچ گیا جس کو میں دیکھ رہا ہوں اور عنقریب تمہاری آزمائش ہوگی جب تمہیں آزمایا جائے تو میرے بارے میں نہ بتانا ۔اب لڑکے کی یہ کیفیت ہو گئی کہ ( اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے) و ہ پیدائشی اندھوں اور برص والوں کوشفا د ینے لگا اور لوگوں کا ہر قسم کا علاج کرنے لگا ، بادشاہ کا ایک ہم مجلس نابینا تھا جب اس نے لڑکے کے بارے میں سنا تو بہت سے تحائف لے کر اس کے پاس آیا اور کہا : اگر تو مجھے شِفا دیدے تو یہ سب کچھ تجھے دیدیا جائے گا۔ اُسنے کہا: میں کسی کو شِفا نہیں دیتا، شِفا تو اللہ تَعَالٰی کے دستِ قدرت میں ہے، اگر تو اس پرایمان لے آئے تو میں دعا کروں گااور وہ تجھے شِفا دے گا۔ چنانچہ، وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لایا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے شِفا عطا فرمادی ، پھر وہ حسبِ معمول بادشاہ کے پاس آکر بیٹھا تو بادشاہ نے پوچھا: تیری بینائی کس نے لوٹا دی؟ اس نے کہا: میرے رب نے۔ بادشاہ نے کہا: کیامیرے علاوہ بھی تیرا کوئی رب ہے؟ اس نے کہا: میرا اور تیرا رب اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے ۔ یہ سن کر بادشاہ نے اسے پکڑا اور اس وقت تک سزا دیتا رہا جب تک کہ اس نے لڑکے کے بارے میں نہ بتادیا۔پھراس لڑکے کو لایا گیا تو بادشاہ نے کہا :اے لڑکے تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ تو مادر زاد اندھوں اور برص والوں کو تندرست کردیتا ہے، اوراب تو خوب ماہر ہو گیا۔ لڑکے نے کہا : میں تو کسی کو شِفا نہیں دیتا، بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ شِفا دیتا ہے۔ ( یہ سن کر ) بادشاہ نے اسے پکڑا اور مسلسل سزا دیتا رہا یہاں تک کہ اس نے راہب کا پتا بتادیا۔ راہب کو لایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ اپنا دین چھوڑ دے تو اس نے صاف انکار کر دیا ۔ بادشاہ نے آرا اس کے سر کے درمیان رکھا اور سرکے دو ٹکڑے کردیئے، پھراپنے مُصاحِب سے کہا کہ وہ اپنا دین چھوڑ دے تو اس نے بھی انکار کر دیا بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرا رکھا اور اس کے دو ٹکڑے کردیئے، پھر لڑکے کو لایا گیا اور اُس سے بھی دین چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا، اُس نے بھی انکار کردیا۔ چنانچہ، اُسے چند آدمیوں کے حوالے کیا گیا کہ اگر یہ اپنے نئے دین سے پلٹ جائے تو ٹھیک ورنہ اسے فلاں پہاڑ کی چوٹی سے نیچے گرا دینا ۔ چنانچہ، لوگ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس نے دعا کی : اے اللہ عَزَّوَجَل! تو جس طرح چاہے مجھے ان سے کفایت کر۔ چنانچہ، پہاڑ لرزنے لگا اور وہ گر پڑے ،(اور ہلاک ہوگئے) لڑکا بادشاہ کے پاس پہنچ گیا بادشاہ نے پوچھا: تیرے ساتھ جانے والوں نے کیا کیا ؟کہا: اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے ان سے بچالیا۔ بادشاہ نے اسے کچھ اور آدمیوں کے حوالے کیا اور کہا: اسے کشتی میں سوار کر کے دریا کے وَسْط میں لے جاؤ اگر اپنے دین سے پھر جائے تو بہتر ہے ورنہ اسے ( دریا میں )پھینک دینا۔ چنانچہ، وہ اُسے لے گئے،تو اُس نے دعا کی: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! تو جس طرح چاہے مجھے ان سے محفوظ رکھ۔ چنانچہ، کشتی اُلٹ گئی اور وہ غرق ہوگئے، لڑکا پھر بادشاہ کے پاس پہنچ گیا، بادشاہ نے پوچھا: تیرے ساتھ جانے والے کہاں ہیں ؟ اُس نے کہا: اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے ان سے بچالیا اور تو اُس وقت تک مجھے قتل نہیں کرسکتا، جب تک میری بات پوری نہ کرے، بادشاہ نے کہا: بتا کیا بات ہے ؟ اُس نے کہا :لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے مجھے ایک لکڑی پر سولی چڑھا دے پھر میرے تَرکَش سے ایک تیر لے کر یہ الفاظ کہتے ہوئے مجھے تیر ماردے ،’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے۔‘ ‘تو جب ایسا کرے گا تو مجھے قتل کرسکے گا ۔ چنانچہ، بادشاہ نے لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے لڑکے کو سولی پر لٹکا کر اس کے تَرکَش سے ایک تیر لیا اور کمان میں رکھ کر’’ بِسْمِ اللہِ رَبِّ الْغُلَام‘‘ کہا :اور تیر پھینک دیا جو لڑکے کی کنپٹی پر لگا۔ ا س نے اپنا ہاتھ کنپٹی پر رکھا اور اس دار فانی سے آخرت کی طرف کوچ کر گیا ۔ یہ دیکھ کر وہاں موجود لوگوں نے کہا: ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے ۔جب لوگوں کی یہ حالت بادشاہ کو بتا کر کہا گیا کہ تجھے جس بات کا خطرہ تھا اللہ (عَزَّوَجَل) نے وہ سب کچھ تیرے ساتھ کردیا ہے ۔ یہ سن کر بادشاہ نے گلیوں کے دَہانے پر خندق کھودنے کا حکم دیا۔ چنانچہ، خندقیں کھود کر ان میں آگ جلا دی گئی اور بادشاہ نے اعلان کر دیا کہ جو شخص اپنے دین سے باز نہ آئے اُسے آگ میں ڈال د یا جائے یا اس سے کہا جائے آگ میں داخل ہو جا! چنانچہ، لوگوں نے ایسے ہی کیا یہاں تک کہ ایک عورت اپنے بچے کے ساتھ آئی۔ وہ آگ میں داخل ہونے سے کچھ ہچکچا نے لگی تو بچے نے کہا :ماں صبر کر، تو حق پر ہے۔ ( مسلم ، کتاب الزھد والرقائق، باب قصۃ اصحاب الاخدود، ص۱۶۰۰، حدیث:۳۰۰۵) حدیث میں جس بادشاہ کاذکرہے اس کا نام زُرْعَہ بِنْ حَسَّان تھا حُمَیْر اور گردو نواح کا بادشاہ تھا اسے یوسف بھی کہا کرتے تھے۔ (تفسیر روح البیان،پ۳۰،البروج، تحت الایۃ:۴، ۱۰/۳۸۶) حدیث میں جس لڑکے کاذکرہوا ’’دَلِیْلُ الْفَالِحِیْن‘‘ میں اس کا نام عَبْدُ اللہ بن تَامِر بیان کیا گیا ہے ۔ (دلیل الفالحین، باب فی الصبر، ۱/۱۶۲) ( رياضُ الصالحين سے ماخوذ حدیث مسلم شریف )