سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے عمران خان کے بارے میں ایک دھماکا خیز دعویٰ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ عمران خان اس قابل ہی نہیں تھے کہ مجھے اپنی پارٹی سے نکال دیتے میں نے خود پارٹی چھوڑ دی تھی کیونکہ میں اس شخص کو بالکل بھی پسند نہیں کرتا تھا اس کی وجہ اس کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلق تھا کیوں کہ میں نے پوری زندگی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جد وجہد کرتے ہوئے گزاری ہے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں اور انہوں نے تین دفعہ اپنا استعفیٰ پیش کردیا ہے لیکن جو لوگ ان کو لے کر آئے ہیں وہ عمران خان کو مکمل طور پر برباد دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے ان کا استعفی قبول نہیں کیا جا رہا اور ان کو زبردستی وزیراعظم کی نشست پر بیٹھا کر رکھا گیا ہے
ان کا کہنا تھا کہ اعظم سواتی کے معاملے کو ہی دیکھ لیجیے کہ عمران خان ایک دفعہ ان کو نااہل قرار دیا اور اس کے بعد دوبارہ کابینہ میں شامل کر دیں اور اس کے ساتھ وہ تمام لوگ جو اسٹبلشمنٹ کے خاص بندے ہیں اور انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی میں رہ کر کام کیا ہے آج سب وہ عمران خان کی کابینہ کا حصہ ہے عمران خان نے 22 سالہ جدوجہد کی لیکن اس کو اس 22 سالہ جدوجہد میں کوئی بھی ایسا بندہ نہیں ملا کہ جو کابینہ میں بیٹھنے کے لائق ہو عامر کیانی پر کرپشن کا الزام ہے اور عمران خان بھی اس کے ساتھ ہی ہے جبکہ دوسری طرف اعجاز شاہ جیسے بندے کو بھی کابینہ کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ جو ایک اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں اور مشرف کے بہت قریب ہے یہ وہی شخص ہے جس نے لال مسجد کے خلاف آپریشن کو لیڈ کیا تھا
جب کہ اس حوالے سے معروف صحافی حامد میر نے بھی عمران خان کو نصیحت کی اور کہا کہ جو بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ جو بھی ملک کے لئے کام نہیں کرے گا اور فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا تو اس کو پارٹی سے نکال دیا جائے گا چاہے کوئی بھی ہو انہوں نے کہا کہ عمران خان صاحب کو چاہیے کہ ذرا خیال کر ایسا نہ ہو کہ ان کو وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑے ہیں اور وہ بھی زبردستی حامد میر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان جس راستے پر چل رہے ہیں جیسا کہ اعظم سواتی کو وزیر بنا کر وہ جلسے میں جاکر کرپشن پر تقریر کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیا کر رہا ہوں ساتھی جیسے کرپٹ انسان کو کابینہ کا حصہ بنا کر پھر کرپشن کے بارے میں درست ہے تو ان کی اپنی کریڈیبیلیٹی مشکوک ہو جاتی ہے