ایک دن ہم دونوں بستر پر ساتھ تھے جب ایک شخص کمرے میں آیا


نیویارک (ویب ڈیسک )امریکی کاروباری شخصیت جِل ڈوڈ فیشن کی دنیا میں بڑا نام رکھتی ہیں اور ایک کامیاب ڈیزائنر بھی ہیں۔ لیکن ان کی اصل وجہ شہرت اسلحے کے معروف عالمی تاجر عدنان خشوگی سے عارضی معاہدے کے تحت رشتہ ازدواج قائم کرنا ہے۔انہوں نے عدنان خشوگی کے ساتھ تقریباً دو سال کا عرصہ گزارا۔یہ سنہ 1982 کی بات ہے جب میں 20 برس کی تھی اور میں نے ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ ایک دن میرا ایجنٹ میرے پاس آیا اور کہا کہ مجھے مونٹی کارلو میں منعقد ہونے والی ایک پارٹی میں شرکت کی دعوت ملی ہے جہاں مجھے ماڈلنگ کرنی ہوگی تو میں نے فوراً اس کی حامی بھر لی۔ جب میں پارٹی میں پہنچی تو مجھے وہاں ایک شخص سے ملوایا گیا جو کہ تقریباً میرے والد کی عمر کا تھا۔ مجھے وہ بالکل بے ضرر محسوس ہوا اس لیے مجھے اس کے ساتھ رقص کرنے میں بھی مضحکہ خیز نہیں لگا۔جب ہم دونوں رقص کر رہے تھے تو ڈانس فلور پر میرے ایجنٹ نے مجھ سے چلا کر پوچھا ‘تمہیں پتا ہے کہ تم کس کے ساتھ رقص کر رہی ہو؟لیکن مجھے ان کے بارے میں بالکل علم نہیں تھا۔ پارٹی میں دوران رقص وہ شخص اپنے گھٹنوں پر گر گیا اور کہا کہ اسے مجھ سے محبت ہے۔

اسی دوران ڈانس فلور پر شیشے کے جام گر گئے جس سے وہ زخمی ہو گیا تھا لیکن اسے کسی بات کی کوئی فکر نہیں تھی۔ یہ مجھے کافی مضحکہ خیز لگا۔ میرا تو خیال تھا کہ لوگ ان پارٹیوں میں جا کر پاگل ہو جاتے ہیں۔ پارٹی کے بعد میرے ایجنٹ نے کہا کہ عدنان تم کو اپنی کشتی میں کافی پینے کے لیے بلا رہا ہے لیکن میں نے کہا کہ مجھے کشتی پر نہیں اپنے بستر پر جانا ہے اور میں اس دن عدنان کے پاس نہیں گئی۔ اگلے دن میں عدنان کے پاس رات کے کھانے کے لیے گئی تو میں اس کی پر تعیش کشتی کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس کشتی میں دس بیڈ رومز تھے اور ایک ہسپتال جہاں دل کا آپریشن بھی ہو سکتا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اپنے کپڑے تبدیل کر لو۔ جب میں تبدیل کرنے کمرے میں گئی تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ الماری میں میرے سائز کے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت لباس موجود تھا۔ اس کے بعد میں اور عدنان گھنٹوں باتیں کرتے رہے۔ اس نے مجھ سے میری زندگی کے بارے میں بہت سے سوالات کیے۔ اس نے مجھ سے میری عادتوں اور میرے طرز زندگی کے بارے میں سوالات کیے اور کہا کہ وہ یہ میری حفاظت کے لیے معلوم کر رہا ہے۔ اس ملاقات کے بعد میری خواہش تھی کہ میں اس سے دوبارہ ملوں۔عدنان کی کشتی پر ملاقات کے کچھ عرصے بعد اس نے مجھے پیرس میں اپنے گھر بلایا اور اس کے بعد ہماری ملاقاتیں اکثر ہونے لگیں۔ میں اس کے ساتھ چھٹیاں منانے افریقہ اور سپین بھی گئی۔ لیکن اس کے ساتھ اتنا وقت گزار کر بھی مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ اس کا پورا نام کیا ہے اور وہ کیا کام کرتا ہے۔ عدنان کا قد صرف پانچ فٹ چار انچ تھا اور میں اس سے پانچ انچ لمبی تھی۔ ماڈلنگ کی دنیا میں ہم نہایت پر کشش لوگوں کے درمیان گِھرے ہوتے ہیں لیکن مجھے ان میں سے کسی نے متاثر نہیں کیا تھا اور میں عدنان کے ساتھ خوش تھی۔ پھر ایک دن آیا جب میں اور عدنان ساتھ تھے اور میں نے اس سے ہم بستری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ عدنان نے کہا کہ وہ ایسا صرف اس صورت میں کر سکتا ہے جب میں اس سے عارضی رشتہ ازدواج قائم کرنے کا معاہدے کروں جس کے بعد میں اس کے ساتھ ہم بستری کر سکوں گی۔ عدنان نے مجھے بتایا کہ وہ قانونی طور پر ایک وقت میں تین بیویاں رکھ سکتا ہے اور اس کے علاوہ وہ 11 خواتین کے ساتھ عارضی رشتہ ازدواج قائم کر سکتا ہے۔ عدنان نے کہا کہ اگر میں اس کے ساتھ عارضی ازدواجی حیثیت قائم کرنے کے لیے راضی ہوں تو میں جب چاہوں، جہاں چاہوں، اس کے ساتھ وقت گزار سکوں گی۔ میں نے اس کی بات مان لی اور عدنان کی عارضی بیوی، یا ’پلیژر وائف‘ بن گئی۔اس فیصلے سے میری زندگی بدل گئی۔ میں نے اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا اور کافی عرصے کے بعد مجھے علم ہوا کہ عدنان اسلحے کا تاجر ہے۔ میں اس کے ساتھ ہوٹلوں میں وقت گزارتی تھی اور اس دوران میں نے اس کی دوسری عارضی بیویوں سے بھی ملاقت کی جو انھی ہوٹلوں میں قیام کرتی تھیں اور عدنان سے ملاقاتیں کرتی تھیں۔ ایک رات جب میں سو رہی تھی تو عدنان میرے کمرے میں داخل ہوا اور اس نے مجھے ہار کا تحفہ دیا۔ لیکن جب میں جاگ گئی تو اس نے کہا کہ وہ غلط کمرے میں داخل ہوگیا ہے لیکن پھر بھی میں یہ ہار میں رکھ سکتی ہوں۔ یہ سن کر میرا دل ٹوٹ گیا اور میں بہت افسردہ ہو گئی۔ اس واقعے کے بعد ہمارے تعلقات میں دراڑ پڑ گئی۔ ایک دن ہم دونوں بستر میں ساتھ تھے جب عدنان کے لیے کام کرنے والا ایک شخص کمرے میں آیا اور عدنان کو ایک نوٹ بک دی جس میں ایک نو عمر لڑکی کی تصویر تھی۔ میں یہ دیکھ کر دم بخود رہ گئی اور عدنان سے پوچھا کہ کیا اس نے مجھے بھی ایسے ہی پسند کیا تھا؟ یہ سن کر عدنان اور اس کا ساتھی دونوں ہنسنے لگے اور مجھے احساس ہوا کہ مجھے بھی ایسے ہی پسند کیا گیا تھا۔ میں صرف 22 برس کی تھی لیکن وہ ایسی لڑکی کی تلاش میں تھا جو عمر میں مجھ سے بھی کم ہو۔اس واقعے کے بعد میرا اور اس کا ساتھ ختم ہو گیا۔ ہم وقتاً فوقتاً فون پر بات کرتے تھے اور عدنان اکثر مجھے کہتا تھا کہ تمہارا جب دل چاہے واپس آجاؤ لیکن میں نہیں گئی۔ بعد میں میری شادی ہو گئی اور اب اس بات کو بھی 20 برس ہو گئے ہیں۔ میں خود اب 57 برس کی ہوں۔ حال ہی میں میری کتاب کی رونمائی ہونی تھی اور اسی دن مجھے عدنان کی وفات کی خبر ملی جسے سن کر میں سکتے میں آگئی اور رونے لگی۔ میں عدنان کو بتانا چاہتی تھی کہ مجھے اس سے محبت ہے۔ ہمارے تعلقات بہت اچھے تھے اور اس نے ہمیشہ میری بہت عزت کی۔ عدنان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے میری زندگی کے بہترین لمحے ہیں۔