کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے بالآخر شہباز خاندان کو ان کی مجبوری اداکاروں کے بچوں کے ساتھ این آر او کر لیا ہے اس کی وجہ بتائی جا رہی ہے کہ عمران خان نے شہباز شریف کو پبلک اکاونٹ کمیٹی کا سربراہ بنا دیا ہے جب کہ عمران خان کا یہ موقف تھا کہ یہ قوم کی دولت کو لوٹنے والے ہیں اور پبلک اکاونٹ کمیٹی کا سربراہ بننے کا مطلب یہ ہے کہ اب تمام چیزیں شہباز شریف کے اختیار سے ہوگی اس سے پہلے بھی اپوزیشن لیڈر ہیں پبلک اکاونٹ کمیٹی کا سربراہ ہوتا ہے لیکن اس حکومت کے آنے کے بعد چار مہینے تک کسی قسم کی کمیٹی قائم کی گئی اور نہ ہی کسی قسم کی سربراہی کسی کو دی گئی اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت مصروف تھی کس کام میں مصروف تھی اس کا بھی تک کسی کو معلوم نہ ہو سکا لیکن مصروفیت کو بتایا کے لیے انہوں نے کروڑوں روپے کے اشتہارات ضرور لگائیں یاد رکھیے اس وقت سینٹ میں سب سے زیادہ تعداد پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی پارٹی کے ہیں اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ کسی قسم کی بھی اگر قانون سازی کی جائے تو اس کے لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا راضی ہونا ضروری ہے ان کے بغیر کسی قسم کی بھی قانون سازی نہیں ہوسکتی اور ایسا ہی ہو رہا ہے
عمران خان نے ابھی تک کسی قسم کا کوئی بھی قانون ایک او کا اسمبلی سے پاس نہیں کیا کیونکہ ان کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں عمران خان کو اس بات کے لئے مجبور کیا گیا کہ وہ کمینہ اور کمیٹی کے سربراہ بہت بنائے اور سب سے زیادہ جوبات کہی جا رہی تھی وہ یہ تھی کہاں پبلک اکاونٹ کمیٹی کا سربراہ شہباز شریف کو بنایا جائے جس پر عمران خان نے شہباز شریف کو پبلک اکاونٹ کمیٹی کا سربراہ بنا دیا اور جمہوری روایت بھی یہی ہے کہ اپوزیشن لیڈر ہیں اس کمیٹی کا سربراہ ہوتا ہے کہا جا رہا ہے کہ یہ بھی ایک این آر او ہے لیکن یہ عمران خان کی مجبوری کہی جاسکتی ہے کیونکہ ان کے اس اقدام کے بغیر انہوں نے کسی قسم کا بھی قانون پاس نہیں ہونے دینا تھا جبکہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے ساری کوشش شہباز شریف کی بیوی تحمیل برع نے کی تھی تعلیمی برا نے ایک سمجھدار خاتون ہیں اور انہوں نے اپنے تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ ان کے ساتھ زیادہ میاں جی اور اپنا کام نکالنے کے لئے ان کو کمیٹی کا سربراہ بنا دیا جائے کیونکہ عمران خان کی حکومت ہے اور وہ کسی قسم کی بھی غلط حرکت نہیں کر سکیں گے اس کے ساتھ تہمینہ درانی نے اپنے بیٹے حمزہ شہباز اپنے شوہر شہباز شریف کو اس بات پر راضی کیا ہے کہ وہ کچھ دیر بالا کر اپنی جان چھڑا لی اور یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہے