اس سال 24دسمبر سے پہلے۔۔نواز شریف اور زرداری۔۔فیصلہ سامنے آگیا، وزیراعظم عمران خان نے ساتھ ہی بڑا اعلان کر ڈالا،کچھ بھی ہو جائیں اس بار نواز زرداری۔۔۔۔کھلبلی مچ گئی جو سامنے آیا
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ انصاف پر قائم رہتا ہے،اپوزیشن کی سب باتیں مان سکتے ہیں لیکن احتساب سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ، جبکرپشن ہوتی ہے تو قیمت عوام ادا کرتی ہے، انصاف نہ ملنا انتشار کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے اور لوگ ملک سے علیحدگی کی مہم چلاتے ہیں، بنگلہ دیش میں بات حقوق سے شروع ہوئی اور علیحدگی پر ختم ہو ئی،پاکستان کی فوج اب کسی اور کی جنگ نہیں لڑے گی۔
لاہور میں پنجاب حکومت کی سو روزہ کارکردگی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ چارٹرآف ڈیمورکریسی کےنام پرمک مکاکیاگیا، جوجیل میں ہےوہ اکاؤنٹ کمیٹی کاسربراہ بن گیاہے،دنیا میں اس بات پر ہمارا مذاق بنے گا،اسمبلی میں روز ڈرامہ ہورہا ہے، اپوزیشن کہتی ہے ہم انتقام لے رہے ہیں،ہم نے تو کوئی کیس نہیں بنایا ،جو کیس ہوئے وہ ہماری حکومت آنے سے پہلے ہوئے تھے،اسی طرح ایف آئی اے جو جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کر رہی ہے وہ 2015 کا معاملہ ہے،قومی اسمبلی میں یہ قانون منظور کیا گیا کہ بدعنوان شخص پارٹی کی قیادت کرسکتا ہے تو سوچیں ہماری جمہوریت کا کیا حال ہوگا؟دنیا بھر میں ہماری جمہوریت کا مذاق اڑایا جا رہا ہےکہ جس پر کرپشن کا کیس ہے اسے ہی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا سربراہ بنا دیا،میں نے اپنی پارٹی کے لوگوں کو کہہ دیا ہے کہ اپوزیشن جو کہتی ہے وہ مان لو،سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرو، شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنا دو ،ہم صرف ایک چیز سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اوروہ احتساب ہے کیونکہ اگر ہم نے کرپٹ لوگوں پر ہاتھ نہ ڈالا تو ہمارے بچوں اور اس ملک کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا،اس کی وجہ یہ ہے کہ کرپشن میں حکومت نہیں عوام کا پیسا چوری ہوتا ہے اور عوام کو ہی اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، جو بھی معاشرہ آگے بڑھتا ہے وہ کرپشن کو پنپنے نہیں دیتا،ہمیں کہاجارہا ہے کہ جمہوریت بچانے کے لیے مفاہمت کرلیں، ہم ساری باتیں مان لیں گے لیکن احتساب کے عمل سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، 22 سال پہلے کرپشن کے خلاف ہی سیاست میں آیا، یہ لوگ پہلے حکومت کو پیسہ بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پھر اسمبلی کو کرپشن بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں مگر یہ اب نہیں ہو گا۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ معاشرہ جب انصاف دیتا ہے تو لوگ معاشرے کا حصہ بننا چاہتے ہیں ،بنگلہ دیش ہم سے کیوں الگ ہوا ؟وہاں حقوق سے شروع ہو کر بات علیحدگی پر ختم ہوئی، میں بھارت کے خلاف ڈھاکہ میں میچ کھیلنے گیا ،تب بنگلہ دیش بن چکا تھا ،ہم نے وہ میچ جیتا تو لوگوں نے اس طرح خوشی کا اظہار کیاکہ مجھے لگا جیسے لاہور میں میچ جیتا ہے،انصاف نہ ملنا انتشار کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے اور لوگ ملک سے علیحدگی کی مہم چلاتے ہیں،مشرقی پاکستان کے لوگ بھی مسلسل یہی کہتے رہے کہ ہمیں انصاف نہیں مل رہا لیکن انہیں نہیں سنا گیا اور حصہ الگ ہوگیا،انصاف نہیں ہوتا تو احساسِ محرومی جنم لیتا ہے، لہٰذا ہمیں ان غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم پچھلی حکومت کی بات کرتے رہتے ہیں، لوگوں کوکہنےدیں،اپنی کارکردگی کاموازنہ پچھلی حکومت سےنہ کریں توکس سےکریں؟ سابق حکومت نے پنجاب کا آدھا بجٹ لاہور پر لگا دیا اور لاہور دیگر شہروں سے بہتر ہو گیا تو دوسرے شہروں کے لوگ لاہور آنا شروع ہو گئے جس سے دیگر مسائل پیدا ہوئے، آج لاہور آلودگی کے لیولز میں سب سے آگے ہے ،درخت کاٹ دئیے گئے ،لاہور کا گرین کور ختم کردیا گیا ،سابق پنجاب حکومت ہمارے مزدوروں کے فنڈز ہڑپ کر گئی،جو فنڈز جنوبی پنجاب کے لئے رکھے گئے تھے ان میں بھی کرپشن کی گئی جس کے سبب وہاں کی محرومیاں بڑھتی گئیں،اب پنجاب گورنمنٹ نے فیصلہ کیا ہے تمام فنڈز کی منصفانہ تقسیم ہو گی،میں وزیراعلی کو اس سوچ پر مبارک باد دیتا ہوں۔انہوں نےکہا کہ جن کا جینا مرنا ملک سے باہر ہے ، سارے اثاثے اور کاروبار بیرونِ ملک ہیں، عید باہر گزرتی ہے اور علاج بھی ملک سے باہر ہوتا ہے ، وہ بھلا کس طرح اس ملک کے وفادار ہوسکتے ہیں؟قوم نے یہ کیسے برداشت کرلیا کہ حکمرانی پاکستان میں اور جائیداد ملک سے باہر بنائی جائے؟ وہ شخص کیسے ملک سے وفادار ہوگا جب اس کی اربوں روپے کی دولت پاکستان سے باہر ہے۔عمران خان نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے جو امداد دی ہے اس پر کوئی شرط عائد نہیں، امداد کے بدلے ہم نے کوئی جنگ نہیں لڑنی، پاکستان کی فوج اب کسی اور کی جنگ نہیں لڑے گی، ہم امن کے داعی ہیں اور امن کے لیے جو کردارادا کرسکے کریں گے،صنعتوں کو گیس اور بجلی سستی ملے گی، اگرصنعتوں کو ری بیٹ نہیں دیں گے تو ان کا دیوالیہ نکل جائے گا، گورننس سسٹم ٹھیک کردیا توملک ٹیک آف کر جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کسانوں کی پیداوار بڑھانا ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے،ایسا نظام وضع کریں گے جس سے کسان زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے،ہمارا کسان ترقی یافتہ ممالک کے کسان سے مقابلہ نہیں کرسکتا ، اس کی پیداوار بڑھانی ہے تاکہ وہ کم محنت سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکے،کم زمین پر زیادہ اناج اگانے کے لئے نئی ٹیکنالوجی متعرف کریں گے،میں انڈوں اور ریلو کٹوں کی بات نہیں کروں گا،میں بات کرتا ہوں تو لوگ مذاق اڑاتے ہیں جب کہ بیل گیٹس نے یہ بات کی تو سب نے تعریف کی اور تالیاں بجائیں،انڈوں کے کاروبار سے دیہی خواتین کو فائدہ ہوگا،ہماری دیہی خواتین کے لیے یہ ایک اہم منصوبہ ہے، کوشش ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے کسانوں کی مدد کی جائے،ہم نے کسانوں کو اوپر لانا ہے تاکہ جو زمین سے 40 من فصل حاصل ہو رہی ہے اسے 80 من تک لایا جائے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا او قبضہ مافیا سے زمینیں خالی کروائیں ان کا مقصد صرف عام عوام کو فائدہ پہنچانا ہے،اسلام آباد میں 350 ارب کی زمین قبضہ گروپ سے چھڑوائی ہے، پنجاب میں اب تک 160ارب کی سرکاری زمین چھڑوائی،یہ عوام کی زمین ہے،کرپشن کے خلاف بھی کارروائی عوام کے لیے ہوتی ہے کیونکہ جو بھی کرپشن کرتا ہے اسے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
پہلے کئی دہائیاں گزر جاتی تھیں زمین کے کیسوں کا فیصلہ نہیں ہوپاتا تھا، باپ کیس درج کراتا تھا تو بیٹا بھی وہی مقدمہ لڑتا رہتا تھا، زمین کے کیسز میں 30،30 سال لگ جاتے ہیں، ہم سول پروسیجر کورٹس کا قانون لا رہے ہیں جس کے ذریعے ایک سال کے اندر سارے سول کیسز کا فیصلہ ہو گا،بہت مشکل سے یہ فیصلہ کیا ہے، اس سے پنجاب، بلوچستان اور وفاق میں تبدیلی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو سیاسی کرنے کا بہت نقصان ہوا ہے، خاص طور پر پنجاب میں پولیس کو سیاسی کرنے کا نقصان ہوا، اصلاحات لا کر پولیس کو سیاست سے پاک کریں گے۔انہوں نے کہا کہ سو دن میں کتنے لوگوں نے کہا کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ غلط شخص لگادیا ہے لیکن کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ عثمان بزدار کرپٹ آدمی ہیں ، یا منی لانڈرنگ کررہے ہیںسربراہ کی سب سے بڑی خوبی ایمانداری ہے، میں نے ان 100 دنوں میں کسی سے بھی عثمان بزدار کے بارے میں یہ نہیں سنا کہ یہ کمیشن بنارہے ہیں یا فیکڑیاں بنا رہے ہیں،عثمان بزدار کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے ، ان سے بہتر آدمی کوئی نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہا کہ وزیر وں کارکردگی بہتر ہے لیکن جو وزیر کام نہیں کرے گا اسے گھر جانا ہوگا، مرا د سعید نے اچھا کام کیا اسی لیے انہیں وفاقی وزیر بنایا گیا،انہوں نے وزراء کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے دو کام کرنے ہیں، ایک تو یہ کہ بے پناہ محنت کرنی ہے اور دوسرا یہ کے عوام کا پیسہ بچانا ہے ،میں ایک ایک پیسا خرچ کرتے ہوئےسوچ رہا ہوتا ہوں کہ یہ عوام کا پیسہ ہے ، وزرا ء بھی اسی روش کو اپنائیں ،وزرا ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیں کیونکہ ترقیاتی منصوبوں میں ملک کے خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار نے والے 40 فیصد آبادی کے پیسے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ قائدا عظمؒ برصغیر کے سب سے عقل مند سیاست دان تھے ، اُنہوں اقلیتوں کو حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی تھی، ہمیں پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کا شہری بنانا ہے، بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ کا انٹرویو پڑھ رہا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ قائداعظم نے بہت پہلے کہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو برابر کا شہری نہیں سمجھا جائے گا لیکن ہم نے سب اقلیتوں کو برابر کا شہری سمجھنا ہے،دنیا کو بتائیں گے کہ اقلیتوں کے لیے مساوات کی فضا کیسے قائم کی جاتی ہے ؟مودی کو بھی بتائیں گے کہ ہم کس طرح اقلیت کو رکھتے ہیں اور آپ کس طرح رکھتے ہیں؟۔