افغان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات جاری ہیں ۔ جس میں ثالثی کا کردار پاکستان ادا کر رہا ہے اس سے پہلے افغانستان کی طالبان تحریک نے اپنی کچھ شرائط رکھی تھی اور کہاں تھا کہ جب تک ان کے شرائط پورے نہیں ہونگے وہ مذاکرات کی میز پر نہیں آئےگے ۔ان شرائط میں سے یہ بھی تھا کہ امریکہ طالبان کے کچھ خاص لوگوںکو فورا رہا کر دے ۔ اور باقی لوگوں کو مذاکرات کے بعد رہا کر دیا جائے ۔ امریکہ نے ان کا یہ مطلابہ مان لیا اور قیدیوں کو حوالہ بھی کر دیا ۔ان قیدیوں میں ایک قیدی کا تعلق حقانی گروپ کے سربراہ سراج الدین حقانی سے ہیں جو کہ ان کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ مذاکرات کے اگلے مرحلہ میں اطلابان امریکہ کے کچھ مخصوص لوگوں کو رہا کر دیں گا ۔ جس کے بعد مذاکراتی عمل کو مزید آگے بڑھایا جائے گا ۔ اس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بیان بھی دیاتھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ کی فوج دنیا میں جہاں بھی موجود ہے وہ واپس اپنے ملک میں آجائے اور امریکہ کی ترقی اور ملک کی خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں ۔ یہ ایک طرح سے باقاعدہ شام اور عراق جنگ کو ختم کرنا بھی ہے ۔
کیونکہ یہاں بھی امریکہ کی فوج کثیر تعداد میں موجود ہے جب کہ افغانستان سے بھی ان کا انخلاء جاری ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کی وزارت خارجہ کے نمائدے کا کہنا تھا ۔ کہ ہم نے یہ نہیں کہا کہ طالبان پر ہمارا کوئی اثر نہیں ۔ اثر ضرور ہے لیکن اتنا بھی نہیں جتنا سمجھا جاتا ہےتیاد رہے یہ مذاکرات یو اے ای میںہورہے ہیں ۔ جس میں طالبان کے نمائدے امریکہ اور پاکستان شامل ہے ۔ طالبان نے یہ شرط بھی لگائی تھی ۔ کہ ان مذاکرات میں افغانستان کی موجودہ کٹھ پتلی حکومت کو بالکل بھی شامل نہیں کیا جائے گا ۔ جس پر امریکہ نے رضا مندی ظاہر کی ۔ جس کے بعد مذاکرات کا دور ہوا