خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق رسولِ خدا صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کے مدنی دور میں (جب وہ مدینہ ہجرت کرچکے تھے، تب) کسی گستاخ شاعر نے نبی کریم کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار لکھے۔
اصحاب نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے حضور صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پھینک دیا۔
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا: “اس کی زبان کاٹ دو۔”
تاریخ لرز گئی، مکہ میں جو پتھر مارنے والوں کو معاف کرتا تھا. کوڑا کرکٹ پھینکنے والی کی تیمار داری کرتا تھا… اسے مدینے میں آکے آخر ہو کیا گیا۔
بعض صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللی علیہ وآلہ وسلم، میں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟
حضور صلی اللی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم نہیں
تب رسولِ خدا صلی اللی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا اس کی زبان کاٹ دو۔۔۔
حضرت علی علیہ السلام بھوری اٹھا کر شہر سے باہر نکلے۔۔
اور حضرت قنبر کو حکم دیا: جا میرا اونٹ لے کر آ۔۔ اونٹ آیا مولا نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھول دی اور شاعر کو بھی کھولا اور 2000 درہم اس کے ہاتھ میں دیے اور اس کو اونٹ پہ بیٹھایا، پھر فرمایا: تم بھاگ جاؤ ان کو میں دیکھ لونگا۔۔۔
اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے حیران رہ گئے کہ یا اللہ، حضرت علی علیہ السلام نے تو رسول صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی۔۔۔
رسول خدا صلی اللی علیہ وآلہ وسلم کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے: یا رسول اللہ صلی اللی علیہ وآلہ وسلم، آپ نے فرمایا تھا زبان کاٹ دو، علی علیہ السلام نے اس گستاخ شاعر کو 2000 درہم دیے اور آزاد کر دیا…حضور صلی اللی علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور فرمایا علی علیہ السلام میری بات سمجھ گئے۔۔۔ افسوس ہے کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔
وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دیے کہ: یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو ۔۔۔ علی علیہ السلام نے تو کاٹی ہی نہیں۔۔۔
اگلے دن صبح، فجر کی نماز کو جب گئے تو کیا دیکھتا ہے وہ شاعر وضو کررہا ہے ۔۔ پھر وہ مسجد میں جا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاؤں چومنے لگتا ہے۔ جیب سے ایک پرچہ نکال کر کہتا ہے: حضور صلی اللی علیہ وآلہ وسلم آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں ۔۔۔
اور یوں ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام نے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گستاخ زبان کو کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا۔
حوالہ: دعائم الاسلام، جلد 2، صفحہ 323