صدر مملک عارف علوی کی 22 سالہ جدو جہد پر ایک نظر۔ کامیابی کیسے ملتی ہے؟ قوم کے لیے ایک بڑا سبق


کہاں جاتا ہے کہ کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے انسان کو بڑے کٹھن راستوں سے گزرنا پڑتا ہے اور یہی مثال صدر مملکت عارف علوی کی ہے جو کافی کٹھن راستے عبور کر کے کامیابی کی منزل تک پہنچے ہیں. جس طرح عارف علوی نے اپنی زندگی میں تکلیفوں اور مشکلات کا سامنا کیا ہے، اس محنت اور صبر کا پھل عارف علوی کو آج ملا ہے. انھوں نے اپنی سیاسی جدوجہد 1969 میں شروع کی اور جنرل ایوب کے خلاف چلنے والے تحریک پر سڑکوں پر آئے اور انکو گولی بھی لگی. اس گولی کا زخم اور نشان انکے جسم پر ابھی بھی موجود ہے.

عارف علوی سیاسی کاموں کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی پر بھی بہت توجہ دیتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ آج انکا شمار پاکستان کے بہترین دانتوں کے ڈاکٹروں میں ہوتا ہے. انکی شروع سے یہی خواہش تھی کہ کسی نہ کسی طرح پاکستانی قوم کی خدمت کریں اور کسی ایسی جماعت میں شمولیت اختیار کریں جس کا لیڈر انصاف پسند، ایماندار، اور عوام کی صحیح معنوں میں خدمت کرے. یہ بات 1996 کی ہے جب پاکستانی کرکٹر عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی. البتہ آج کی اس سب سے بڑی پارٹی کو اس زمانے میں کیوں نہیں جانتا تھا اور جسکو تحریک انصاف کا پتا بھی چلتا تھا تو ہر کوئی عمران خان کا مذاق اڑاتا تھا اور کہتا تھا کہ بیٹا تھجھے ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملنے والا. اس کٹھن دور میں عارف علوی ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے عمران خان پر اعتبار کیا اور لوگوں کی مزاخیہ طنز اور تنقید کے باوجود تحریک انصاف پارٹی میں شمولیت اختیار کی.

1997 میں عارف علوی نے سندھ سے تحریک انصاف کا صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا. الیکشن لڑے لیکن بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا. اس شکست کے بعد کبھی کبھار عارف علوی کو بھی لگتا تھا کہ انھیں کامیابی حاصل نہیں ہونی، لیکن پھر اپنے آپ کو حوصلہ دیتے اور لوگوں کی تنقید سائیڈ پر رکھتے هوئے اپنے رب پر یقین رکھتے اور جدو جہد میں لگے رہتے.

2008 میں الیکشن کا بائیکاٹ ہوا. زندگی کا انتہائی برا وقت عارف علوی نے تک دیکھا جب الطاف حسین نے عمران خان کے کراچی آنے پر پابندی لگا دی اور تحریک انصاف کر کارکنوں کے خلاف مہم بھی چلائی. الطاف حسین کو پتا تھا کہ عمران خان ایک سچا لیڈر ہے اور وہ انکی قتل و غارت اور بدمعاشی کے لیے بھرپور آواز اٹھائے گا، بس اسی ڈر کی وجہ سے الطاف حسین نے عمران خان پر پابندی لگائی اور دھمکی دیتے هوئے کہا کہ اگر عمران خان نے کراچی میں قدم رکھا تو انکو قتل کر دیا جائیگا. عمران خان ان دھمکیوں کی وجہ سے 2 سال کراچی نہیں گئے.

اس مشکل دور میں بھی عارف علوی ڈٹے رہے. اس وقت انکا گھر کراچی میں ہی تھا اور انہوں نے وہیں رہنا پسند کیا. انکے گھر والوں نے خوب ترلے منتے کیں کہ آپ کراچی والا گھر چھوڑ دیں، ہمیں چوبیس گھنٹے آپکی جان کی فکر لگی رہتی ہے، آپ جب بھی گھر سے باہر قدم رکھتے هوئے تو بار بار ایسا لگتا ہے کہ کہیں کوئی بری خبر نہ آجائے. لیکن عارف علوی الطاف حسین کی بدمعاشی کے آگے ڈٹے رہے.

پھر 2 سال بعد عمران خان نے فیصلہ کیا کہ اب تو میں کراچی جاکر دکھاؤں گا، دیکھتا ہوں مجھے کون مارتا ہے. شدید دھمکیوں کے باوجود عمران خان نے کراچی کا دورہ کیا اور الطاف حسین کی بدمعاشی کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے. عمران خان کی اس دلیری پر کراچی میں موجود تحریک انصاف کے کارکنوں کی جان میں جان آئی اور انھیں بھی کپتان کی طرف دیکھ کر حوصلہ پیدا ہوا. اب آہستہ آہستہ پارٹی جاگنا شروع ہو گئی، اور لوگوں نے بھی عمران خان کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا.

آہستہ آہستہ کراچی جاگنے لگا اور 2011 میں تحریک انصاف کا شمار پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں ہونے لگا. عمران خان نے کراچی میں تاریخی جلسہ کر کے دکھایا جسکی کسی کو امید نہ تھی. ایم کیو ایم کو تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے بہت مرچیں لگیں اور انھوں نے کراچی تحریک انصاف کے صدر عارف علوی کو مارنے کا پورا پلان تیار کر لیا تھا. 2013 کے الیکشن هوئے اور ایم کیو ایم کی جانب سے بدترین دھاندلی کی گئی. لیکن قدرت کا کچھ ایسا کرنا ہوا کہ عارف علوی کے حلقہ Na-250 سے الیکشن ملتوی ہو گئے اور الطاف حسین کو یہ خبر ہر گز پسند نہ آئی. الطاف حسین نے اپنے باشندوں کو حکم دیا کہ عارف علوی کو راستے سے ہٹاؤ. الطاف حسین نے جب کسی کو مارنے کا آڈر دینا ہوتا تھا تو وہ کود ورڈ استعمال کرتا تھا جیسے “ڈاکٹر کی سپاری تیار کرو”، “ڈاکٹر کی سپاری”. لیکن آپ نے سنا تو ہو گا ہی کہ جسے الله رکھے اسے کون چکھے! بس الله کا ایسا کرنا ہوا کہ الطاف حسین کا ہر حربہ ناکام رہا اور عارف علوی نے چند ہفتوں Na-250 میں ہونے والے الیکشن میں میدان مار لیا! 16 سال کے کٹھن راستے کے بعد عارف علوی کو بڑی کامیابی مل گئی اور وہ جیت کر اسمبلی میں آئے اور عمران خان کے شانہ بشانہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہو گئے.

آج الله کا شکر ہے کہ پاکستان کو ایک ایسا صدر ملا ہے جو تعلیم یافتہ ہے اور کرپشن کے داغ سے بلکل پاک ہے. صدر مملکت عارف علوی نے نہ تو کرپشن کی اور نہ ہی پرچی سسٹم کے زریعے آج یہاں پہنچے، بلکہ اپنی محنت، دیانتداری، ایماندری، اور عوام کی دعاؤں سے اس مقام پر پہنچے ہیں. عارف علوی سیاست میں پیسہ بنانے نہیں آئے بلکہ اس غریب عوام کی خدمت کے لیے سیاست میں آئیں ہیں. انکا اپنا ہسپتال ہے، خود اتنے بڑے ڈاکٹر ہیں، اور اچھی خاصی محنت کی کمائی سے اپنا گھر، گاڑی سب کچھ خریدا ہے. انکو کسی چیز کی ضرورت نہیں مگر وہ صرف اس قوم کے بھلے کے لیے سیاست میں آئیں ہیں.

آپ خود ہی سوچیں انھوں نے اس قوم کے لیے 22 سال کی جدو جہد کی ہے. جس بندے کو الطاف حسین کی جانب سے قتل کی دھمکیاں موصول ہوتی ہوں اور اسکو یہ بھی ڈر ہو کہ کہیں الطاف حسین اسکے ہسپتال کو آگ نہ دے، مگر پھر بھی وہ بندہ قوم کی خاطر ڈٹا رہے تو ایسا بندہ فرشتہ ہی ہوسکتا ہے! اگر انکی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ یاں تو ملک چھوڑ گیا ہوتا یا پھر کہتا کہ مجھے سیاست میں آنے کی کیا ضرورت، میں آرام سے اپنا ہسپتال چلاتا ہوں اور سکون سے گھر بیٹھتا ہوں.