پوری تاریخ انسانی میں صر ف تین بچوں نے گہوارے میں گفتگو کی


صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”پوری تاریخ انسانی میں صر ف تین بچوں نے گہوارے میں گفتگو کی ہے. “ ان تین بچوں میں سے ایک تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور دوسرے حضرت یوسف علیہ السلام کے حق میں گواہی دینے والا بچہ، جبکہ تیسرا جریج کی گواہی دینے والا بچہ ہےاس قصے کی تفصیل یہ ہے کہ جریج بنی اسرائیل میں ایک عابد وز اہداور شب زندہ دار عالم تھے.
انہوں نے عبادت کے لیے آبادی سے باہر ایک جھونپڑی نما گرجا گھر بنا لیا تھا. ایک دن وہ عبادت میں مشغول تھے، ان کی والدہ ایک لمبی مسافت طے کر کے ان سے ملنے آئیں اور آوازدی ” اے جریج !“ جریج نے اپنے دل میں کہا ” یا الہٰی ! میری ماں پکار رہی ہے اور میں اس وقت نماز میں مشغول ہوں. ماں کو جواب دوں یا نماز میں مشغول رہوں؟ “بہر حال وہ اپنی صوابد ید کے مطابق نماز پڑھتے رہے اور ماں کو پکار کا جواب نہیں دیا. ماں واپس چلی گئی. دوسرے دن وہ پھر آئی ، اس وقت بھی جریج نماز پڑھ رہے تھے. ماں نے آواز دی” اے جریج !…“

جریج نے اپنے دل میں کہا ” یا الہٰی ! میں تیری عبادت میں مشغول ہوں. ادھر میری ماں مجھے پکار رہی ہے… میں کیا کروں؟ “بہر حال اس کشمکش کے باوجود وہ نماز میں مشغول رہے. ماں واپس چلی آئی. تیسرے دن ماں پھر آئی ، اس دن بھی جریج عبادت میں مشغول تھے. ماں نے آواز دی ” بیٹا جریج !“ جریج نے پھردل ہی دل میں کہا ” اے میرے پروردگار ! میری ماں اور میری نماز !…“ اور وہ چپ چاپ حسب معمول نماز ہی پڑھتے رہے. ماں کی صدا کا جواب نہیں دیا. ماں کے منہ سے بددعا نکل گئی”خدایا!اسے اس وقت تک موت نہ آئے، جب تک یہ بدکار عورتوں کے منہ نہ دیکھ لے“.جریج کی ماں بددعا کر کے واپس چلی گئی. بنو اسرائیل میں جریج کے بارے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں. وہ جریج کی عبادت پر حسد کرنے لگے… انہوں نے خود تو جریج کی بلندی تک پہنچنے کی کوشش نہ کی…البتہ ان کی خواہش تھی کہ وہ جریج کو اپنی پستی تک اُتار لائیں تاکہ وہ بھی ان ہی کی طرح فسق و فجور اور فحاشی وبدکاری میں مبتلا ہو جائے.بنو اسرائیل نے حدود الہٰی پامال کر کے پردے کی اہمیت کو فراموش کر دیا تھا، لہٰذا عورتوں اور مردوں کا باہم اختلاط شرو ع ہو گیا. مردوں کی مجلسوں میں عورتیں بناو¿ سنگھار کر کے شریک ہونے لگیں اور مرد بھی عورتوں سے لطف اندوز ہونے لگے. اس وجہ سے ان میں زنا کاری و بدکاری اور سرکشی و طغیانی کی وبا پھیل گئی.جریج کی ماں کی بددعا کے بعد بنو اسرائیل ان کی پاکیزہ زندگی کو داغدار کرنے کی منصوبہ سازی کرنے لگے. ان لوگوں کی بستی میں ایک بدکار عورت رہتی تھی. وہ نہایت خوبصورت تھی. لوگ خوبصورتی میں اس کی مثال دیا کرتے تھے. اس نے بنی اسرائیل سے کہا” اگر تم چاہو تو میں جریج کو اپنے دام فریب میں پھانس لوں؟ “انہوں نے کہا” ٹھیک ہے ، یہ بڑی اچھی ترکیب ہے“اس فاحشہ نے خوب بناو¿ سنگھار کیا.

جریج کی خدمت میں پہنچی اور ان پر ڈورے ڈالنے لگی، لیکن انہوں نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا. اب فاحشہ نے ایک اور چال چلی، وہ ایک چروا ہے کے پاس گئی ، جو جریج کی جھونپڑی کے پاس رہتا تھا. اس چرواہے نے اس فاحشہ کے ساتھ بدکاری کی تو وہ حاملہ ہو گئی. جب بچہ پیدا ہو ا تو اس نے یہ کہنا شروع کر دیا ” یہ بچہ جریج کا ہے“بنو اسرائیل جریج کو رسوا کرنے کی تاک میں تھے. یہ خبر سنتے ہی وہ جریج پر چڑھ دوڑے. انہیں عبادت گاہ سے باہر گھسیٹا ، عبادت گاہ کو ڈھادیا اور انہیں بری طرح زدوکوب کرنے لگے. جریج نے پوچھا”وجہ کیا ہے .تم لوگ آخر کیوں مجھے مار رہے ہو؟“. جاری ہےیہودیوں نے کہا” تم نے اس بدکار عورت سے منہ کالا کیا ہے. یہ بچہ تمہارے اس گناہ کا نتیجہ ہے“جریج نے کہا ” ٹھہرو!… اس بچے کو میرے پاس لاو¿“.لوگ اس بچے کو ان کے پاس لے آئے.جریج نے کہا” مجھے نماز پڑھ لینے دو“وہ نمازپڑھ کر بچے کے پاس آئے اور اس کا پیٹ دبا کر پوچھا ” بتا اے بچے! تیرا باپ کون ہے؟“خدا کی قدرت سے وہ شیر خوار بچہ بول اٹھاکہ اس کا باپ فلاں چرواہا ہے.بچے کی گفتگو سنتے ہی لوگ سخت نادم و پریشان ہوئے اور جریج کو بوسہ دینے لگے. لوگوں نے کہا” ہم آپ کی عبادت گاہ سونے کی بنادیں گے“.جریج نے کہا” نہیں! بلکہ مٹی سے ویسی ہی بنا دو جیسی یہ پہلے تھی“ لوگوں نے جریج کی جھونپڑی پہلے ہی کی طرح بنا دی.اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ نیک عبادت گزار آدمی کی دعا خدائے بزرگ و برتر قبول فرماتے ہیں. یہ بھی پتہ چلا کہ آدمی جتنا بھی عبادت گزار ہو، مگر والدین کو راضی رکھنا بے حد ضروری ہے کیونکہ ان کی بددعا اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے.

..