حضرت ملاں جیون سے وقت کے بادشاہ نے کوئی مسئلہ دریافت کیا.انہوں نےلگی لپٹی رکھے بغیر کھری کھری سنا دیں.
بادشاہ کو بہت غصہ آیا لیکن وقتی طور پر برداشت کر گیا. چند دن کے بعد اس نے ایک سپاہی کے ہاتھ کوئی پیغام بھیجا. ملاں جیون اس وقت حدیث شریف کا درس دے رہے تھے. انہوں نےسپاہی کے آنے کی پروا تک نہ کی اور درس حدیث جاری رکھا. درس کے اختتام پر سپاہی کی بات سنی. سپاہی اپنے دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا کہ میں بادشاہ کا قاصد تھا اور ملاں جیون نے تو مجھے گھاس تک نہ ڈالی.چنانچہ اس نے واپس جا کر بادشاہ کو خوب اشتعال دلایا کہ میں ملاں جیون کے پاس آپ کا قاصد بن کرگیا تھا. انہوں نے مجھے کھڑا کیے رکھا
اور پروا ہی نہ کی. مجھے لگتا ہے کہ اس کو اپنے شاگردوں کی کثرت پر بڑا ناز ہے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی دن آپکے خلاف بغاوت کر دے. بادشاہ نے ملاں جیون کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا. بادشاہ کے بیٹے ملاں جیون کے شاگرد تھے. انہوں نے یہ بات سنی تو اپنے استاد کو بتا دی. ملاں جیون نے یہ سن کر وضو کیا اور تسبیح لے کر مصلٰے پر بیٹھ گئے کہ اگر بادشاہ کی طرف سے سپاہی آئیں گے تو ہم بھی اللہ تعالٰی کے حضور ہاتھ اٹھا کر معاملہ پیش کریں گے
.شہزادے نے یہ صورت حال دیکھی تو بادشاہ کو جا کر بتایا کہ ملاں جیون نے وضو کر لیا اور وہ مصلےٰ پر دعا کرنے کیلئے بیٹھ گئے ہیں. بادشاہ کے سر پر اس وقت تاج نہ تھا وہ ننگے سر ، ننگے پاؤں دوڑا اور ملاں جیون کے پاس آ کر معافی مانگی اور کہنے لگا ‘حضرت ! اگر آپ کے ہاتھ اٹھ گئے تو میری آئندہ نسل تباہ ہو جائے گی’. ملاں جیون نے اسے معاف کر دیا.
..