حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا.” سورہ بقرہ قرآن کا کوہان ہے اور اس کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ اس کی ایک ایک آیت کے ساتھ اسی اسی (۸۰) فرشتے نازل ہوتے تھے اور بالخصوص آیت الکرسی تو خاص عرش تلے نازل ہوئی اور اس سورت میں شامل کی گئی.
سورہ یٰسین قرآن کا دل ہے جو شخص اسے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آخرت طلبی کے لئے پڑھے اسے بخش دیا جاتا ہے.“اس سورت کو مرنے والوں کے سامنے پڑھا کرو” (مسند احمد) اس حدیث کی سند میں ایک جگہ عن رجل ہے تو یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس سے مراد کون ہے ؟ لیکن مسند احمد ہی کی دوسری روایت میں
اس کا نام ابو عثمان آیا ہے. یہ حدیث اسی طرح ابو داؤد نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے.ترمذی کی ایک ضعیف سند والی حدیث ہے کہ ہر چیز کی ایک بلندی ہوتی ہے اور قرآن پاک کی بلندی سورہ بقرہ ہے.اس سورت میں ایک آیت ہے جو تمام آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت “آیت الکرسی” ہے. مسند احمد، صحیح مسلم، ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ. جس گھرمیں سورہ بقرہ پڑھی جائے وہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا. امام ترمذی اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں. ایک اور حدیث میں ہے کہ جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے. اس حدیث کے ایک راوی کو امام یحییٰ بن معین تو ثقہ بتاتے ہیں لیکن امام احمد وغیرہ ان کی حدیث کو منکر کہتے ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے. اسے نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح کہا ہے.ابن مردویہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پاؤںکہ وہ پیر پر پیر چڑھائے پڑھتا چلا جائے لیکن سورہ بقرہ نہ پڑھے. سنو! جس گھر میں یہ مبارک سورت پڑھی جاتی ہے وہاں سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے ، سب گھروں میں بد ترین اور ذلیل ترین گھر وہ ہے جس میں کتاب اللہ کی تلاوت نہ کی جائے امام نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں بھی اسے وارد کیا ہے مسند دارمی میں حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے اس گھر سے شیطان گوز مارتا ہوابھاگ جاتا ہے. ہر چیز کی اونچائی ہوتی ہے اور قرآن کی اونچائی سورہ بقرہ ہے. ہر چیز کا ما حصل ہوتا ہے اور قرآن کا ما حصل مفصل سورتیں ہیں.حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص سورہ بقرہ کی پہلی چار آیتیں اور آیت الکرسی اور دو آیتیں اس کے بعد کی اور تین آیتیں سب سے آخر کی، یہ سب دس آیتیں رات کے وقت پڑھ لے اس گھر میں شیطان اس رات نہیں جا سکتااور اسے اور اس کے گھر والوں کو اس دن شیطان یا کوئی اور بری چیز ستا نہیں سکتی. یہ آیتیں مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کا دیوانہ پن بھی دور ہو جاتا ہے.حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں “جس طرح ہر چیز کی بلندی ہوتی ہے ، قرآن کی بلندی سورہ بقرہ ہے جو شخص رات کے وقت اسے اپنے گھر میں پڑھے تین راتوں تک شیطان اس گھر میں نہیں جا سکتا اور دن کو اگر گھر میں پڑھ لے تو تین دن تک شیطان اس گھر میں قدم نہیں رکھ سکتا.” (طبرانی. ابن حبان. ابن مردویہ) ترمذی. نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک چھوٹا سا لشکر ایک جگہ بھیجا اور اس کی سرداری آپ نے انہیں دی جنہوں نے فرمایا تھا کہ مجھے سورہ بقرہ یاد ہے ، اس وقت ایک شریف شخص نے کہا میں بھی اسے یاد کر لیتا لیکن ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس پر عمل نہ کر سکوں. حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قرآن سیکھو، قرآن پڑھو جو شخص اسے سیکھتا ہے ، پڑھتا ہے پھر اس پر عمل بھی کرتا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بھرا ہوابرتن جس کی خوشبو ہر طرف مہک رہی ہے. اسے سیکھ کر سو جانے والے کی مثال اس برتن کی سی ہے جس میں مشک تو بھرا ہوا ہے لیکن اوپر سے منہ بند کر دیا گیا ہے. (امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور مرسل روایت بھی ہے ) واللہ اعلم.صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ رات کو سورہ بقرہ کی تلاوت شروع کی، ان کا گھوڑا جو ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا،اس نے اچھلنا کودنا اور بد کنا شروع کیا. آپ نے قرات چھوڑ دی گھوڑا بھی سیدھا ہو گیا. آپ نے پھر پڑھنا شروع کیا. گھوڑے نے بھی پھر بد کنا شروع کیا. آپ نے پھر پڑھنا موقوف کیا. گھوڑا بھی ٹھیک ٹھاک ہو گیا.
تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا چونکہ ان کے صاحبزادے یحییٰ گھوڑے کے پاس ہی لیٹے ہوئے تھے اس لئے ڈر معلوم ہوا کہ کہیں بچے کو چوٹ نہ آ جائے ، قرآن کا پڑھنا بند کر کے اسے اٹھا لیا. آسمان کی طرف دیکھاکہ جانور کے بد کنے کی کیا وجہ ہے ؟ صبح حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آ کر واقعہ بیان کرنے لگے آپ سنتے جاتے اور فرماتے جاتے ہیںپھر “اسید پڑھے چلے جاؤ” حضرت اسید نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم تیسری مرتبہ کے بعد تو یحییٰ کی وجہ سے میں نے پڑھنا بالکل بند کر دیا. اب جو نگاہ اٹھی تو دیکھتا ہوں کہ ایک نورانی چیز سایہ دار ابر کی طرح ہے اور اس میں چراغوں کی طرح کی روشنی ہےبس میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اوپر کو اٹھ گئی. آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا چیز تھی؟ یہ فرشتے جو تمہاری آواز کو سن کر قریب آ گئے تھے اگر تم پڑھنا موقوف نہ کرتے تو وہ صبح تک یونہی رہتے اور ہر شخص انہیں دیکھ لیتا، کسی سے نہ چھپتے. یہ حدیث کئی کتابو ں میں کئی سندوں کے ساتھ موجود ہے. واللہ اعلم. اس کے قریب قریب واقعہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہےکہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ گزشتہ رات ہم نے دیکھا، ساری رات حضرت ثابت کا گھر نور کا بقعہ بنا رہا اور چمکدار روشن چراغوں سے جگمگاتا رہا. حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شاید انہوں نے رات کو سورہ بقرہ پڑھی ہو گی. جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا “سچ ہے رات کو میں سورہ بقرہ کی تلاوت میں مشغول تھا”. اس کی اسناد تو بہت عمدہ ہے مگر اس میں ابہام ہے اور یہ مرسل بھی ہے. واللہ اعلم.
..