مسجد نبوی کے صحن میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پیاروں کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہیں۔ اچانک دروازے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : ’’اس دروازے سے وہ شخص نمودار ہونے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے‘‘۔
چند ہی لمحوں بعد ایک انصاری صحابی اسی دروازے سے مسجد میں داخل ہوئے۔ وضو کے قطرے ان کی داڑھی سے ٹپک رہے تھے۔بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام پیش کرنے کے بعد وہ خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئے۔ تمام صحابہ کی نظریں اس خوش نصیب ساتھی کے چہرے کی بلائیں لینے لگیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دوسرا دن ہوا تو آج بھی رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس دروازے سے ایک شخص اندر داخل ہونے والا ہے
جو اہل جنت میں سے ہے۔ صحابہ کی اشتیاق بھری نظریں دروازے پر لگ گئیں کہ دیکھیں آج یہ بشارت کس کے حصے میں آتی ہے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس دفعہ بھی وہی انصاری صحابی دروازے پر نمودار ہوئے۔ جب تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا اور وہی انصاری صحابی حضور علیہ السلام کی بشارت کی نعمت سے سرفراز ہوئے تو صحابہ کرام کے دلوں میں رشک کے ساتھ ساتھ تجسس بھی پیدا ہوگیا۔ مجلس برخواست ہوئی اور یہ انصاری صحابی حضورﷺ کی مجلس سے اٹھ کر جانے لگے تو
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے ہو لئے۔ انصاری اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کسی وجہ سے میں تین راتیں اپنے گھر نہیں جانا چاہتا۔ کیا آپ مجھے اپنے ہاں قیام کی اجازت دیں گے؟ آیئے بسم اللہ کہہ کر وہ انصاری حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو اپنے گھر لے گئے جہاں انہوں نے تین راتیں قیام فرمایا۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس جستجو میں تھے کہ دن بھر کے معمولات کے علاوہ آخر وہ کون سا خاص عمل ہے
جو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتنا محبوب قرار پایا کہ تین دن تک جنت کی نوید صرف انہی کا نصیب بنتی رہی۔ لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کوئی بھی تو غیر معمولی عمل اس انصاری کا نظر نہ آیا۔ ان کے شب و روز کے معمولات وہی تھے جو باقی تمام صحابہ کرام کے تھے۔آخر انہیں اپنا دل کھول کر اس انصاری دوست کے سامنے رکھنا پڑا۔ میرے بھائی! میں نہ تو اپنے گھر سے لڑ کر آیا تھا اور نہ ہی کسی اور وجہ سے آپ کے ہاں ٹھہرنے پر مجبور ہوا۔ بات دراصل یہ ہے
کہ ہمارے آقا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل تین دن تک یوں فرماتے رہے اور آپ کے لئے جنت کی نوید سناتے رہے۔میرے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ آخر وہ کون سا خاص عمل ہے جو حضور علیہ السلام کی زبان مبارک سے آپ کے لئے بشارت کا سبب بنا۔ میں تین دن دیکھتا رہا لیکن مجھے تو آپ کا کوئی خاص اور غیر معمولی کام نظر نہیں آیا۔ میری درخواست ہے کہ اس راز سے خود ہی پردہ اٹھا دیجئے۔ انصاری صحابی نے مسکرا کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو دیکھا اور بڑی تواضع سے فرمایا :میرے دوست سب کچھ تمہارے سامنے تھا۔ میرا تو کوئی خاص عمل نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ان کا جواب سن کر جب میں وہاں سے واپس آنے لگا
تو انہوں نے فرمایا : عمل تو وہی کچھ تھا جو آپ نے ملاحظہ فرمالیا۔ ہاں اپنے من کی ایک بات سے تمہیں ضرور آگاہ کردیتا ہوں فرمایا :انّی لَا اَجِدُ فِی نَفْسِی لِاَحَدٍ من المسلمين غِشًّا وَلَا اَحْسَدُ احدًا علٰی خير اعطاه اللّٰهُ اِيّاهُ۔ ’’میرے دل میں کسی مسلمان کے لئے کینہ نہیں ہے اور نہ میں اللہ کی طرف سے اسے ملنے والی کسی خیر پر حسد کرتا ہوں‘‘۔دوسری روایت میں ہے
: انی لَمْ اَبِت ضاغنًا علی مسلمٍ۔ ’’میں نے کسی مسلمان کے بارے میں کبھی اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھ کر رات نہیں گزاری‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ خوشی سے پکار اٹھے۔ یہی تو راز ہے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کی مقبولیت کا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انصاری صحابی کے من کا کسی اور مسلمان کے لئے حسد، کینہ اور بغض و عناد سے پاک ہونا ان کے لئے جنت کی خوشخبری کی نوید سعید بن گیا۔
..