الیکٹرانک میڈیا کی حقیقت


کیمرہ آن ہوا۔۔۔ خاتون میزبان نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کیا اور کہنے لگیں ’’رمضان کا مہینہ ہمیں برداشت اور رواداری کا درس دیتاہے‘ اس مہینے میں ہم بھوک اور پیاس کے ذریعے اللہ کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں ‘ سحری اور افطاری کی برکات سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور مہینے کے تیس دن اپنا ایمان تازہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بالغ مسلمان پر روزہ فرض کیا ہے لہذا ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ پورے روزے رکھیں۔۔۔پروگرام کا باقاعدہ آغاز کریں گےایک نعت رسول مقبولؐ سے ۔۔۔لیکن اس سے پہلے لیتے ہیں ایک چھوٹی سی بریک۔۔۔ہمارے ساتھ رہئے

گا‘‘۔کچھ لمحے وہ کیمرے کی طرف دیکھتی رہیں‘ سائیڈ پر ایک بڑا سا ٹی وی رکھا تھا جس پر لائیو ٹرانسمشن نظر آرہی تھی۔ دو تین سیکنڈ کے بعد وہاں اشتہارات چلنا شروع ہوگئے جس کا مطلب تھا کہتھا کہ اب خاتون لائیو نہیں جارہیں۔ انہوں نے اطمینان سے دوپٹہ اتارا اور سائیڈ پر پڑی ہوئی ڈبی اٹھا کر ایک سگریٹ سلگایا اور ہونٹوں سے لگا کر کش لینے لگیں۔میری آنکھیں پھیل گئیں۔ان کے سامنے دو عدد مولوی صاحبان بھی موجود تھے لیکن کسی نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔ یہ واقعہ آج سے اٹھارہ سال پہلے کا ہے جب میں نے پہلی دفعہ ٹی وی سٹیشن کے اندر جاکررمضان کی لائیو ٹرانسمشن دیکھی تھی۔اس کے بعد مجھے سینکڑوں بار ایسے مظاہرے دیکھنے کو ملے اور میری سمجھ میں آتا رہا کہ میڈیا خودکیا کرتاہے اور دِکھاتاکیا ہے؟؟؟ میں نے یہ بھی دیکھا کہ رمضان آنے سے ایک ہفتہ پہلے سحری کی ٹرانسمشن ریکارڈ ہورہی ہے۔ باریش لوگ اللہ کی باتیں بھی کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ آج کی رات بہت بابرکت ہے کہ آج پہلا روزہ ہے۔رات 12 بجے افطاری ہورہی ہے اور انتہائی عقیدت سے اسٹوڈیو میں بیٹھ کر کھجورسے روزہ کھولتے ہوئے رقعت آمیز دعائیں کرائی جارہی ہیں۔۔۔۔۔ اب تو یہ سب دیکھنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔نیوز چینل ہو یا انٹرٹینمنٹ۔۔۔ سب پر ڈرامہ چلتاہے۔ خبروں سے کرائم شو تک ہر جملہ‘ ہر انداز اپنے اندر ایکٹنگ لیے ہوئے ہے۔جن خواتین میزبان کو آپ مارننگ شوز میں روتے ہوئے دیکھتے ہیں‘ جن کی زبانیں اسلام کا ذکر کرتے نہیں تھکتیں ۔۔۔کبھی ان کو آف کیمرہ دیکھئے‘ آپ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔پہلے صرف ڈرامے میں کام کرنے کے لیے ایکٹرز درکار ہوتے تھے‘ اب مذہبی شوز سے لے کر سیاسی ٹاک شوز تک ایکٹر زبھرے ہوئے ہیں۔سیدھی بات ہوہی نہیں سکتی کیونکہ سیدھی بات سے ریٹنگ نہیں آتی۔یہ جو آپ کو اکثر ٹاک شوز کے میزبان دانشمندی سے بھرپور جملے فرفر بولتے نظر آتے ہیں اس کے پیچھے بھی پورا سسٹم کام کرتاہے۔یہ ریسرچ کوئی اور کرتاہے‘ لکھتا کوئی اور ہے ۔۔۔میزبان کے سامنے یہ سارا سکرپٹ لکھا ہوا آرہا ہوتاہے لیکن کیمرے کا اینگل ایسا رکھا جاتاہے کہ دیکھنے والوں کو لگتاہے جیسے میزبان ان کی طرف دیکھ رہا ہے اور جو کچھ بھی بول رہا ہے فی البدیہہ بول رہاہے۔سیاستدانوں سے تیکھے سوالات عموماً میزبان کے ذہن کی تخلیق نہیں ہوتے بلکہ اس عمل کے پیچھے کوئی ذہین Content Writer موجود ہوتاہے جوایک ایک چیز کو نفاست سے ترتیب دے کر میزبان کے آگے رکھ دیتاہے‘اس کے بعد میزبان کی ایکٹنگ شروع ہوتی ہے اور ٹاک شو کو چارچاند لگ جاتے ہیں۔یہ سلسلہ صرف نیوز چینل تک ہی محدود نہیں، اکثر مذہبی چینلز میں بھی یہی ڈرامے بازی ہوتی ہے۔جو سیاستدان آپ کو ٹاک شوز میں ایک دوسرے کے چیتھڑے اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ ٹاک شو کے اختتام پر میزبان کے ہمراہ بیٹھ کر قہقہے لگاتے ہوئے چائے پیتے ہیں ۔کئی تو ایسے بھی ہیں کہ ٹاک شو کی ریکارڈنگ کے دوران اگر ان کے منہ سے کوئی غلط بات نکل جائے تو میزبان کو فون کرکے بتا دیتے ہیں کہ فلاں چیز کاٹ دی جائے۔میزبان جس رخ سے ہماری اسکرینز پر جلوہ افروز ہوتے ہیں وہ اینگل بھی سوچ سمجھ کر بنایا جاتاہے۔پروگرام اگر ریکارڈڈ ہو تو میزبان ہر دو منٹ بعد میک اپ آرٹسٹ کوبلا کر اپنی ’’پفنگ‘‘ کرواتے ہیں تاکہ سکرین پر ان کا مکھڑا زیادہ سے زیادہ حسین نظر آئے مزاحیہ پروگراموں کی ریکارڈنگ بھی مزاحیہ ہوتی ہے۔آپ کو اگر ایسے کسی پروگرام میں شرکت کا موقع ملے تو دیکھئے گا کہ آپ کتنی دیر وہاں کرسیوں پر بیٹھے‘ وہاں کیا پیش کیا گیا اور جب پروگرام آن ایئر ہوا تو کیا کچھ شامل ہوچکا تھا۔عموماً مزاحیہ پروگراموں میں ہمیں سامنے بیٹھے حاضرین بات با ت پر قہقہے لگاتے اور تالیاں بجاتے دکھائی دیتے ہیں‘حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔۔۔اس کا فارمولا بھی بڑا دلچسپ ہے۔ حاضرین کو بٹھا کر پہلے تو ان سے کہا جاتاہے کہ ذرا زور سے تالیاں بجائیں۔۔۔پھر ان سے چھ سات زوردار قہقہوں کی فرمائش کی جاتی ہے۔۔۔پھر کہا جاتاہے کہ تھوڑی دیر پوری سنجیدگی سے میزبان کی طرف دیکھتے ہوئے ایسے سرہلائیں گویا آپ بہت اہم بات سن رہے ہیں۔۔۔اس دوران کیمرے خوبصورت چہروں کے کلوز اپ بناتے رہتے ہیں۔وہ پروگرام جو دس بارہ گھنٹوں میں ریکارڈ ہوتاہے اس کے حاضرین کو ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی فارغ کردیا جاتاہے۔اصل مرحلہ اس کے بعد شروع ہوتاہے۔ ایکٹرز مختلف جملے بولتے ہیں‘ مختلف سیگمنٹس ریکارڈ کیے جاتے ہیں اورایڈیٹنگ میں انہیں اس طرح سے جوڑا جاتاہے کہ ہر جملے کے بعد حاضرین ہنس ہنس کربے حال ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں اورمیزبان کی سنجیدہ بات پر سردھنتے دکھائی دیتے ہیں۔چونکہ حاضرین کو بلانا اور انہیں Manage کرنا ایک مشکل کام ہے لہذا کئی دفعہ پرانے حاضرین دکھا کر بھی نیا پروگرام تیار کرلیا جاتاہے اور حاضرین گھر بیٹھے خود کو ٹی وی پر دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے سوچ رہے ہوتے ہیں کہ وہ کب اِس پروگرام میں گئے تھے؟میزبان کے منہ سے معلومات کے جو پھول جھڑ رہے ہوتے ہیں انہیں سن کر اکثر سادہ لوح ناظرین متاثر ہوجاتے ہیں کہ بڑا دانشور بندہ ہے حالانکہ اس کے پیچھے بھی پورا ڈرامہ ہوتاہے‘ گوگل سے معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں‘ ریسرچر انہیں ترتیب دیتے ہیں اور مختلف ٹکڑوں کی شکل میں بار بار ریکارڈنگ کرکے انہیں یوں جوڑا جاتاہے کہ لگتاہے میزبان ایک ہی سانس میں معلومات کا خزانہ دے رہاہے۔ان پروگرامز میں اکثر لائیو کالز کے نام پر جعلی کالز ڈالی جاتی ہیں تاکہ اپنی مرضی کا سوال آئے اور اس بہترین جملہ کسا جاسکے۔نیوز کاسٹرز بھی ڈرامائی تکنیک سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں‘یہ جب کسی وقوعے پر کسی سینئر افسر سے سوال و جواب کررہے ہوتے ہیں تو اکثر خود انہیں بھی نہیں پتا ہوتا کہ یہ کیا بول رہے ہیں؟؟؟؟ ان کے کانوں میں لگے چھوٹے چھوٹے سپیکرز کی تاریں کسی اور کمرے میں بیٹھے ہوئے کسی جہاندیدہ صحافی کے مائیک سے منسلک ہوتی ہیں وہیں سے ان کے کان میں سوالات ڈالے جاتے ہیں اور یہ آگے بول دیتے ہیں۔یہ ڈرامے روز ہوتے ہیں اور اتنی عمدگی سے ہوتے ہیں کہ بے اختیار ان پر یقین کرنے کو جی چاہتاہے۔۔۔۔۔سچ اِس سے بہت دور ہے،میڈیا پر سچ نہیں چل سکتا۔۔۔۔کیونکہ سچ کی ڈیمانڈ ہی نہیں۔۔۔۔۔میڈیا ہمیں وہی دِکھا رہا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔!!!!!دن کی بہترین پوسٹ پڑھنے کے لئے لائف ٹپس فیس بک پیج پر میسج بٹن پر کلک کریں