’’بچھو‘‘ کی پیدائش کس حیران کن طریقے سے ہوتی ہے؟ حضرت شیخ سعدی سے منسوب ایک سبق آموز واقعہ


بدخصلت اور بُرے لوگوں کی پہچان کیلئے یوں تو کئی حکایات ،پندو نصائح کے انبارمل جاتے ہیں مگرشیخ سعدی ؒ نے بدفطرت لوگوں کی مثال بچھوکی پیدائش سے دیتے ہوئےان سے دور رہنے کی تلقین نہایت ہی دلچسپ پیرائے میں کی ہے۔آپؒ فرماتے ہیں کہ بچھو کی پیدائش عام جانوروں کی طرح نہیں ہوتی ،اپنی ماں کے پیٹ میں جب یہ کچھ بڑا ہوجاتا ہے تواندر سے پیٹ کوکاٹنا شروع کردیتا ہے ،اور یوں سوراخ کرکے باہر آجاتا ہے ۔بچھو کی فطرت اور عادت پر غور کیا جائےتو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہاس نے اپنی زندگی کے پہلے دن سے برائی ہی کی ہوگی ،یہی باعث ہے کہ ہر شخص اس سے نفرت کرتا ہے اور دیکھتے ہی مارڈالتا ہے ۔سعدی ؒ نے نہایت آسان مگر دلچسپ پیرائے میں مجلس یاراں کے انتخاب اور صحبت سے متعلق بچھو کی مثال دے کر

اہل عقل کو شریف اور بدخصلت کی پہچان سمجھا دی۔آپؒ نے بچھو کی پیدائش کی مثال دے کر بدفطرت لوگوں سے علیحدہ رہنے کی تلقین کی ہے ۔ انسان کی نفسیات کا مسئلہ بے حد الجھا ہوا ہے ۔یہ بات آسانی سے سمجھ میں نہیں آسکتی کہ کوئی شخص شریف اور کوئی بدفطرت وبدخصلت کیوں ہے ، لیکن اس بات سے کسی طرح بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسانوں میں یہ فرق موجود ہے ، اور اہل عقل کے لیے لازم ہے کہ اس فرق کو ہر معاملے میں ملحوظ رکھیں ۔ابدخصلت اور بُرے لوگوں کی پہچان کیلئے یوں تو کئی حکایات ،پندو نصائح کے انبارمل جاتے ہیں مگرشیخ سعدی ؒ نے بدفطرت لوگوں کی مثال بچھوکی پیدائش سے دیتے ہوئےان سے دور رہنے کی تلقین نہایت ہی دلچسپ پیرائے میں کی ہے۔