قبول اسلام سے قبل مکے میں کوئی شخص مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے زیادہ حسین و خوش پوشاک اور نازو سے نعمت سے نہیں پلا تھا. ان کے والدین کو ان سے شدید محبت تھی، خصوصاً ان کی والدہ خناس بنت مالک نے اپنے مال ودولت کے بل بوتے پر اپنے جگر گوشے کو بہت ناز و نعم سے پالا تھا.
وہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے عمدہ سے عمدہ پوشاک پہنتے اور لطیف سے لطیف خوشبو استعمال کرتےوہ جس گلی سے گزرتے وہاں سے اٹھنے والی خوشبو اس بات کی گواہی دیتی کہ مصعب یہاں سے گزر گیا ہے، جو کپڑا ایک بار پہن لیتے دوبارہ پہننے کی نوبت نہ آتی کہ ان کے ہاں نت نئے کپڑوں کی کوئی کمی نہ تھی لیکن جب ان کے مشرف بہ اسلام ہونے کی خبر ان کی والدہ اور ان کے اہلِ خاندان کو ہوئی. توپھر کیا تھا ماں اور خاندان والوں کی ساری محبت نفرت میں بدل گئی،
سارے ناز و نعم ختم ہو گئے اور ‘‘مجرم توحید’’ کو مصائب و آلام کے حوالے کر دیا گیا. اہل خاندان کے ظلم وستم سے تنگ آکر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم پر پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی ، اور پھر مدینہ کی فضا نے وہ منظر بھی دیکھا کہ قیمتی پوشاکیں پہننے والا ایک چھوٹی سی بوسیدہ چادر سے جسم ڈھانپے پھر رہا ہے. احد کے میدان میں جب داد شجاعت دینے کی باری آئی تو ایک بار پھر علم جہاد آپ ہی کے ہاتھ میں تھا اور اس علم کو اس انداز میں سربلند رکھا کہ جب مشرکین کے ایک شہسوار ابن قمیۂ نےتلوار کے وار سےآپ کا داہنا ہاتھ شہید کر دیا تو فوراً بائیں ہاتھ میں علم کو پکڑ لیا اور پھر جب بایاں ہاتھ کٹ گیا تو دونوں بازوؤں کا حلقہ بنا کر پرچم کو تھام لیا اور اسے سرنگوں نہ ہونے دیا
اور جب دشمن کے نیزے کے وار سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جامِ شہادت نوش کیا تو آپ کی بھائی نے جھنڈا سنبھال لیا وہی مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ آج اس حال میں اپنے رب کے حضور حاضر ہو رہے تھے کہ ان کے کفن کیلئے صرف ایک چادر میسر تھی.سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے، پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر ننگا ہو جاتا بالآخر اس حال میں دفن ہوئے کہ سر ڈھانپ دیا گیا اور پاؤں پر گھاس پھونس ڈال دی گئی. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کی لاش کے قریب تشریف لائےاور یہ آیت تلاوت فرمائی:. مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ (اہل ایمان میں سے چند آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو عہد کیا تھا اس کو سچا کر دکھایا) پھر لاش سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’میں نے تم کو مکہ میں دیکھا تھا جہاں تمہارے جیسا حسین و خوش پوشاک کوئی نہ تھا. لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال الجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے. بے شک اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں کامیاب رہو گے.
..