حضرت حسن بصریؒ کی خدمت میں ایک شخص نے آ کر قحط سالی کی شکایت کی تو انہوں نے اس سے فرمایا ’’استغفار کرو‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو، دوسرے شخص نے غربت و افلاس کی شکایت کی تو اس سے فرمایا ’’استغفار کرو‘‘ تیسرا ایک آدمی آیا اس نے نرینہ اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی، فرمایا ’’استغفار کرو‘‘چوتھے شخص نے آ کر اپنے باغ کے خشک ہونے کا ذکر کیا تو آپ نے اس سے بھی فرمایا ’’استغفار کرو‘‘. ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس چار آدمی الگ الگ شکایت لے کر آئے اور
آپ نے سب کو استغفار کا حکم دیا، حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا ’’میں نے اپنی طرف سے تو کوئی بات نہیں بتلائی، خود اللہ تعالیٰ نے سورہ نوح میں ارشاد فرمایا ہے ترجمہ ’’یعنی اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو، بیشک وہ بڑا بخشنے والا ہے، آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، تمہارے اموال اور بیٹوں میں اضافہ کرے گا اور تمہارے لئے باغ اور نہریں بنائے گا‘‘.
امام قرطبیؒ نے امام شعبی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ استسقاء یعنی
بارش طلب کرنے کے لئے شہر سے نکلے اور صلاۃ استسقاء کی بجائے صرف استغفار پڑھ کر واپس آئے اور بارش ہو گئی، لوگوں نے پوچھا ’’آپ نے بارش کے لئے دعا نہیں کی، صرف استغفار کیا تھا‘‘ آپ نے فرمایا ’’میں نے تو زبردست موسلادھار برسنے والے بادلوں کو مانگا تھا‘‘ او رپھر یہ آیت پڑھی ’’استغفرو ربکم انہ کان غفارا، یرسل السماء علیکم مدرارا‘‘.
..