کیا آپ کو معلوم ہے کہ سعودی عرب کے ایک بینک میں خلیفہء سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آج بھی کرنٹ اکاونٹ ہے.!! یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ مدینہ منورہ کی میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر باقاعدہ جائیداد رجسٹرڈ ہے . آج بھی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بجلی اور پانی کا بل آتا ہے.
کیا آپ جانتے ہیں کہ مسجد نبوی کے پاس ایک عالی شان رہائشی ہوٹل زیر تعمیر جس کا نام عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوٹل ہے ؟؟ تفصیل جاننا چاہیں گے ؟؟ یہ وہ عظیم صدقہ جاریہ ہے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صدق نیت کا نتیجہ ہے. جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وھاں پینے کے صاف پانی کی بڑی قلت تھی. ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا تھا. اس کنویں کا نام “بئر رومہ” یعنی رومہ کنواں تھا.. مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور اپنی پریشانی سے آگاہ کیا. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے .
ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں چشمہ عطاء کرے گا ” حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا . کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لیے یہودی نے فروخت کرنے سے انکار کر دیا… حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تدبیر کی کہ یہودی سے کہا پورا کنواں نہ سہی ، آدھا کنواں مجھے فروخت کر دو، آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا ھو گا اور دوسرے دن میرا ہو گا.. یہودی لالچ میں آ گیا . اس نے سوچا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دن میں پانی زیادہ پیسوں میں فرخت کریں گے ،اس طرح زیادہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا. اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا .. حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی.. لوگ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لیے بھی ذخیرہ کر لیتے. یہودی کے دن کوئی بھی شخص پانی خریدنے نہیں جاتا.. یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باقی آدھا کنواں بھی خریدنے کی گزارش کی. اس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راضی ھو گئے اور پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا .. اس دوران ایک آدمی نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کنواں دوگنا قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی.حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھ اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے .اس نے کہا میں تین گنا دوں گا.حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے اس سے کئی گنا کی پیش کش ہے. اس نے کہا میں چار گنا دوں گا.حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے. اس طرح وہ آدمی رقم بڑھاتا گیا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی جواب دیتے رہے. یہاں تک اس آدمی نے کہا کہ حضرت آخر کون ہے جو آپ کو دس گنا دینے کی پیش کش کر رہا ہے؟.حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میرا رب مجھے ایک نیکی پر دس گنا اجر دینے کی پیش کش کرتا ہے .. وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا. عثمانی سلطنت کے دور میں اس باغ کی دیکھ بال ہوئی. بعد از سعودی کے عہد میں اس باغ میں کھجوروں کے درختوں کی تعداد پندرہ سو پچاس ہو گئی .. یہ باغ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رجسٹرڈ ہیں.. وزارتِ زراعت یہاں کے کھجور،
بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بینک میں جمع کرتی رہی یہاں تک کہ اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو گی کہ مرکزی علاقہ میں ایک پلاٹ لیا گیا جہاں فندق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا .. اس ہوٹل سے سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی متوقع ہے.جس کا آدھا حصہ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم ہو گا باقی آدھا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بینک اکاونٹ میں جمع ہو گا. اندازہ کیجیئے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انفاق کو اللہ تعالیٰ نے کیسے قبول فرمایا اور اس میں ایسی برکت عطاء کی کہ قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ بن گیا .. یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے ساتھ تجارت کی .جنھوں نے اللہ تعالیٰ کو قرض دیا ،اچھا قرض، پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں کئی گنا بڑھا کر لوٹا دیا
..