1911ء دہلی میں جارج پنجم کا دربار منعقد ہوا۔ اس میں شمولیت کے لیے مذہبی پیشواؤں کو دعوت نامے بھیجے گئے۔سیدنا پیر مہر علی شاہؒ نے دعوت نامے کے جواب میں لکھوا بھیجا کہ انہیں حاضری سے معذور سمجھا جائے۔ اس حکومت کی طرف سے چونکہ ہمارے مذہب اسلام پر پابندی نہیں لگائی گئی لہذا بادشاہ کے لیے دعا گو ہوں۔ وائسرائے ہند کی تاج پوشی کی اس تقریب میں شمولیت سے انکار پر حاسدین و معاندین نے حکومت کو پیر صاحب کے خلاف اکسایا۔پنجاب کے گورنر سر لوئی ڈین نے کہا میری گورنمنٹ پیر صاحب گولڑہ کے انکار کی اصل وجہ معلوم کرے گی۔ چنانچہ راولپنڈی کے انگریز کمشنر نے آپ کو ریسٹ ہاؤس بلوا بھیجا تو آپؒ نے فرمایا۔ “میں 3 منٹ کے لیے بھی اپنی اس مسجد کو چھوڑ کر کمشنر کے پاس جانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ کمشنر صاحب سے کہو کہ اگر اسے کوئی کام ہے
تو وہ یہاں آ جائے۔ اس کے بعد آپ نے بغداد شریف کی طرف منہ کر کے بارگاہ_غوثیت میں استغاثہ پیش کیا۔ “تیرے مڈھ قدیم دے بردیاں نوں لوگ دسدے خوف چپڑاسیاں دا، “دستگیر کر مہر توں مہرعلی اتے، تیرے باجھ ہے کون اللہ راسیاں دا۔ ان اشعار کا پڑھنا تھا کہ حضور غوث اعظمؒ کی مدد آ پہنچی اور وہ کمشنر جو آپ کی گرفتاری کے احکامات لے کر آنا چاہتا تھا وہ خود آپؒ کا گرویدہ ہو گیا۔ حکومت برطانیہ کے فیصلے کے مطابق آپ کو جلا وطن کر دیا جانا تھا۔ ایک دن ایک مسلمان افسر نے آپؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ بات طے ہو چکی ہے کہ حکومت آپ کو جلا وطن کرنا چاہتی ہے۔
آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو ہمیں جلا وطن کرنے کے درپے ہیں انہیں اپنے بارے میں علم نہیں کہ قدرت ان کے بارے میں کیا ارادہ رکھتی ہے۔ چنانچہ اس کے چند سال بعد 18_1914 کے زمانہ میں جنگ عظیم اول چھڑ جانے سے آپ کی جلا وطنی کی تجویز فائل میں ہی دھری رہ گئی اور حکومت برطانیہ کو منہ کی کھانا پڑی۔