’اس جگہ رہنے والے مرد اپنی بیگمات کو۔۔۔‘ سائنسدانوں کو 200سال پرانے گاؤں کی باقیات مل گئیں اور ان سے یہاں رہنے والے مَردوں کے بارے میں ایسا شرمناک ترین انکشاف کردیا کہ ہر کسی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا


جدید دور کے اہل مغرب کو شرم و حیا جیسی چیزوں سے عاری قرار دیا جاتا ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا قدیم زمانے میں یہ لوگ شرم و حیاءکے پیکر تھے؟ برطانیہ میں دریافت ہونے والے آثار قدیمہ نے اس سوال کا جواب بھی دے دیا ہے. دی میٹرو کی رپورٹ کے مطابق ماہرین آثار قدیمہ نے 200 سال پرانے ایک ایسے گاﺅں کی باقیات دریافت کی ہیں جو اس دور میں بھی مادر پدر آزاد جنسی اختلاط کا گڑھ تھا.

یہاں بسنے والے ’مانیا فین کمیونٹی‘ کہلاتے تھے جن میں جنسی بے راہروی کا یہ عالم تھا کہ مرد اپنی بیویوں کو دوسرے مردوں کے ساتھ بانٹنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے. اس جگہ ایک سوشلسٹ کمیونٹی آباد تھی جس کی بنیاد 1838ءمیں کیمبرج شائر کے ایک جاگیردار ولیم ہوڈسن نے رکھی تھی. ہوڈسن ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھنا چاہتا تھا جہاں سب لوگوں کے کاروبار، رہن سہن اور حتیٰ کہ بیویاں بھی مشترکہ ہوں گی.

تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ یہ کمیونٹی محض 25 ماہ ہی اپنی بے راہرو حالت میں قائم رہ سکی کیونکہ مشترکہ شریک حیات کے معاملے پر لوگوں کے درمیان جھگڑے شروع ہوگئے تھے. آثار قدیمہ کی دریافت کیلئے جاری کھدائی کے کام کی رہنمائی کرنے والے سائنسدان ڈاکٹر مارکس بریٹین کا کہنا تھا ”ان لوگوں نے باقی معاشرے کی روایات اور رسوم کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک نئی قسم کا معاشرہ قائم کیا تھا. ان لوگوں نے شراب نوشی اور جنسی اختلاط کے ایسے اڈے قائم کر رکھے تھے جہاں مرد اپنی بیویوں کو ساتھ لیجاتے تھے اور وہاں کوئی روک ٹوک نہ ہوتی تھی کہ کون کس کے ساتھ تعلق استوار کرے گا .“

..