حضرت غوث علی شاہ قلندرؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ بابری گیا وہاں ایک گمراہ آدمی نے خدائی کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ ایک دن وہ میرے پاس آیا۔ میں نے اس کا حال پوچھا اس نے کہا کہ میں خدا ہوں۔میں نے کہا واہ حضرت ہم تو مدت سے آپ کی تلاش میں تھے۔ گھر چھوڑا، وطن چھوڑا آپ ہی کی جستجو میں جابجا پھرتے رہے۔ آپ خود ہی تشریف لے آئے۔ بڑی مہربانی اور احسان فرمایا۔ پھر میں نے اس کے لئے کھانا منگایا اتفاقاً اس دن روکھی روٹیاں چنے کی تھیں۔ اس سے اچھی طرح کھائی
نہ گئیں لقمہ گلے سے اترنا دشوار تھا۔ کچھ ناراض سا ہونے لگا۔ میں نے کہا ۔ ناراضی کی کیا وجہ ہے خود ہی انصاف کیجئے کہ خدا تو آپ ٹھہرے جیسا کہ ہم کو آپ نے دیا وہ سامنے لا رکھا۔ اگر آپ پلاؤ دیتے تو وہی پیش کیا جاتا۔ اس کے بعد میں نے قرآن پاک کی ایک آیت پڑھی اور اس سے معنی دریافت کئے۔ کہا میں تو ناخواندہ ہوں۔ میں نے کہا سبحان اللہ آپ بھی عجیب خدا ہیں کہ خود ہی قرآن نازل کیا اور پھر اس کے معنی نہیں سمجھتے۔ اس پر وہ سخت نادم ہوا اور اپنے قول سے توبہ کی۔