شمالی کوریا میں صدر کم جونگ ان کی حکومت کے مظالم کے بارے میں اکثر میڈیا میں خبریں آتی ہیں لیکن پہلی بار شمالی کوریا سے فرار ہونے والی ایک خاتون نے اس ظلم کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرکے دنیا کے رونگٹے کھڑے کردئیے ہیں۔
دی مرر کی رپورٹ کے مطابق ہی ژیون نامی خاتون اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر شمالی کوریا سے فرار ہوئی ہے اوراب ساری دنیا کو بتارہی ہے کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ ہی ژیون کا کہنا ہے کہ وہ ایک کرنل کی بیٹی تھی لہٰذا دارالحکومت پیانگ یانگ میں آسائش کی زندگی گزرتی تھی لیکن حکمرانوں کے قریب ہونے کا یہ مطلب بھی تھا کہ اس نے بہت سے مظالم کو قریب سے دیکھا۔
’یہ آدمی ہمارے گھر پر آکر پچھلے 9 سال سے مسلسل میرا ریپ کررہا ہے لیکن ماں نے آپ کو بتانے سے منع کیا تھا کیونکہ۔۔۔‘ 24 سالہ نوجوان لڑکی نے اچانک اپنے باپ سے ایسی بات کہہ دی کہ زندگی کا سب سے زوردار جھٹکا دے دیا، کبھی سوچ نہ سکتا تھا کہ اس کی اپنی بیوی ہی۔۔۔
ہی ژیون نے بتایا کہ ”میں نے 11 افراد کو اپنی آنکھوں کے سامنے انتہائی بھیانک انداز میں قتل کئے جانے کا منظر بھی دیکھا۔ ان افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے فحش فلم بنائی تھی۔ان سب کو ایک بڑے سٹیدیم میں لے جا کر اینٹی ائرکرافٹ توپوں کے آگے باندھا گیا اور پھر توپیں ایک ایک کر کے چلائی گئیں۔ اس وقت وہاں 10 ہزار کے قریب لوگ موجود تھے اور میں توپوں سے تقریباً 200 فٹ کے فاصلے پر کھڑی تھی۔جب بھی توپ چلتی تو اس کے آگے بندھے فرد کے جسم کے چیتھڑے اڑ جاتے اور ہر طرف خون اور گوشت کے لوتھڑے بکھر جاتے۔ یہ بہت ہی بھیانک منظر تھا۔ میں نے وہاں بہت سے لوگوں کو قے کرتے اور بے ہوش ہوتے دیکھا۔ جب تمام 11 افراد کو قتل کیا جا چکا تو ان کے جسموں کے بچے کچے ٹکڑوں کو ٹینکوں تلے روند کر ریزہ ریزہ کر دیا گیا۔ وہ گوشت کے لوتھڑوں پر تب تک ٹینک چلاتے رہے جب تک یہ ذرہ ذرہ ہو کر مٹی میں جذب نہ ہو گئے۔آج کئی سال بعد بھی وہ بھیانک مناظر میرے ذہن میں اسی طرح تازہ ہیں، اور شاید زندگی بھر ڈراﺅنا خواب بن کر میرا تعاقب کرتے رہیں گے۔“