ڈاکٹر نے رپورٹس دیکھیں‘ ٹم کو کلینک میں بلایا‘ پانی کا گلاس اس کے سامنے رکھا اور شرمندہ لہجے میں بولا ”ٹم تمہارے لئے بری خبر ہے“ ٹم نے کپکپاتے ہاتھوں سے پانی کا گلاس اٹھایا‘ تین گھونٹ بھرے‘ گلاس واپس میز پر رکھا اور لمبی سانس لے کر بولا ”اوکے ڈاکٹر ناﺅ آئی ایم ریڈی“ ڈاکٹر بولا ”ٹم تمہیں ملٹی پل سکلیروسیس ہے“ وہ حیرت سے ڈاکٹر کی طرف دیکھنے لگا‘ ڈاکٹر بولا ”یہ خطرناک اور لاعلاج بیماری ہے‘یہ بیماری انسان کے نروس سسٹم اور دماغ دونوں کو نگل جاتی ہے اور مریض چند ماہ میں سبزی بن کر
رہ جاتا ہے“ ٹم کے نیچے سے زمین سرک گئی‘ اس نے آنسوﺅں سے بھیگی آواز میں پوچھا ”ڈاکٹر کوئی علاج‘ کوئی دوائ‘ کوئی تھراپی“ ڈاکٹر نے مایوسی سے سر ہلا دیا‘ وہ اٹھا‘ ڈاکٹر سے ہاتھ ملایا اور کلینک سے باہر آ گیا‘ سڑک پر نئی زندگی اس کی منتظر تھی‘ ایک ایسی زندگی جو اس سے پہلے اس کی منصوبہ بندی میں شامل نہیں تھی‘ جس کا اس نے تصور تک نہیں کیا تھا‘ وہ فٹ پاتھ کے بینچ پر بیٹھ گیا اور زندگی کی پوری کتاب اس کے سامنے ورق در ورق کھلنے لگی۔وہ ریاست Alabama کے چھوٹے سے قصبے رابرٹس ڈیل میں پیدا ہوا تھا‘ والد شپ یارڈ میں ملازم تھا اور ماں فارما سوٹیکل کمپنی میں کام کرتی تھی‘ ابتدائی تعلیم رو دھو کر سرکاری سکول میں حاصل کی‘ 1978ءمیں یونیورسٹی چلا گیا‘ انڈسٹریل انجینئرنگ کی ڈگری لی اور 1988ءمیں ڈیوک یونیورسٹی سے ایم بی اے کر لیااور آئی بی ایم میں نوکری شروع کر لی‘ وہ کام سمجھتا تھا چنانچہ ادارے نے اسے دو سال میں نارتھ امریکا کا ڈائریکٹر بنا دیا‘ وہ 12 سال آئی بی ایم میں رہا‘ وہ اس کے بعد انٹیلی جینٹ الیکٹرانک کا سی ای او بن گیا‘ وہ وہاں سے ”کم پاک“ میں چلا گیا‘ وہ اس کا صدر تھا‘ ایپل کمپنی کے بانی ”سٹیو جابز“ کو1998ءمیں نائب کی ضرورت پڑی‘ اس نے امریکا کے تمام بڑے ”سی او ز“ کے پروفائل دیکھے‘ وہ ٹم کی گروتھ سے متاثر ہوا اور اس نے اسے نوکری کی پیش کش کر دی‘ یہ نوکری کسی اعزاز سے کم نہیں تھی‘ ٹم نے ایپل کمپنی جوائن کر لی‘ وہ جلد ہی کمپنی کا سینئر وائس پریذیڈنٹ بن گیا‘ سٹیو جابز اس پر بے انتہا اعتماد کرتا تھا‘ ٹم بولڈ فیصلے کرتا تھا‘ ایپل کو اس کے فیصلوں کی وجہ سے شروع میں نقصان ہوا لیکن یہ فیصلے بہت جلد درست ثابت ہوئے‘ سٹیو جابز کو 2004ءمیں جگر کا کینسر ہو گیا‘ یہ جابز کی زندگی کا خوفناک جھٹکا تھا‘ اس نے اپنا کام ٹم کو سونپنا شروع کر دیا‘ 2011ءمیں سٹیو جابز کی بیماری بڑھ گئی اور وہ کام کے قابل نہ رہا‘ اس نے 24 اگست 2011ءکو استعفیٰ دیا اور ٹم کو اپنی جگہ ایپل کا سی ای او بنا دیا‘ سٹیو جابز 5 اکتوبر 2011ءکو انتقال کر گیا اور یوں پوری کمپنی ٹم کے پاس چلی گئی‘ وہ دنیا کی سب سے بڑی برانڈ ویلیو کی حامل کمپنی کا مختار کل بن گیا‘ وہ بہت خوش تھا‘ وہ خوش کیوں نہ ہوتا‘ یہ شپ یارڈ میں کام کرنے والے مزدور کے بیٹے کی ترقی کی معراج تھی‘ وہ خود کو اس وقت فضا میں محسوس کر رہا تھا لیکن پھر وہ بیمار ہوا‘ اس کے ٹیسٹ ہوئے اور ڈاکٹر نے اسے ناقابل علاج بیماری کا شکار قرار دے دیا۔وہ فٹ پاتھ کے بینچ پر بیٹھے بیٹھے اپنی کتاب زیست کے ورق الٹ رہا تھا‘ وہ امریکا کا کامیاب ترین ”سی ای او“ تھا‘ اس نے مینجمنٹ کو سائنس کا درجہ دے دیا‘ وہ کمپنی کے تمام ملازمین کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا‘ تمام ملازمین کی ای میلز کا جواب دیتا تھا اور وہ ان کی شادی اور غمی میں بھی شریک ہوتا تھا‘ وہ ہر لحاظ سے ایک آئیڈیل انسان تھا‘ وہ شادی کے خلاف تھا‘ اس نے 55 سال کی عمر تک پہنچ کر بھی اپنا گھر آباد نہیں کیا لیکن پھر اسے اچانک ”ملٹی پل سکلیروسیس“ ہو گیا‘ وہ اس وقت خود کو خلا میں لٹکا ہوا محسوس کرنے لگا‘ وہ فٹ پاتھ اور وہ بینچ اس کی نئی زندگی کا نیا نقطہ ثابت ہوا‘ اس نے وہاں بیٹھے بیٹھے اپنی باقی زندگی‘ اپنی ساری کامیابی اور اپنی ساری دولت خیرات کرنے کا فیصلہ کر لیا‘اس نے فیصلہ کر لیا وہ اپنی باقی زندگی ویلفیئر پر خرچ کرے گا‘ یہ فیصلہ کرنے کی دیر تھی اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ آ گیا‘ اس نے ڈاکٹر کو دور سے فٹ پاتھ پر دوڑتے ہوئے اور ”ہائے ٹم ہائے ٹم“ کا اعلان کرتے ہوئے دیکھا‘ ڈاکٹر کے ہاتھ میں سبز رنگ کی ایک فائل تھی‘ ٹم فٹ پاتھ پر کھڑا ہو گیا‘ ڈاکٹر دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا‘ اسے گلے لگایا اور جذباتی آواز میں بولا ”ٹم مبارک ہو‘ تم سو فیصد ٹھیک ہو‘ یہ کمپیوٹر کی غلطی تھی‘ تمہاری رپورٹس دوسرے مریض کی رپورٹس کے ساتھ مکس اپ ہو گئی تھیں‘ میں نے تمہارے جانے کے بعد لیبارٹری سے تمہاری فائل منگوائی‘ تم سو فیصد صحت مند ہو“ وہ فوراً فٹ پاتھ پر بیٹھا‘ سینے پر کراس بنایا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگا‘ وہ اٹھا‘ اس نے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا اور ڈاکٹر کی بری خبر اور پھر خوش خبری کو قدرت کا اشارہ سمجھ کر اپنے فیصلے پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا۔یہ ٹم کک کی کہانی ہے‘ دنیا کی سب سے مہنگی کمپنی کے سی ای او ٹم کک کی سچی کہانی۔ٹم نے اس کے بعد اپنی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا‘ ایپل اور بنانا۔ ایپل اس کی پروفیشنل لائف ہے اور بنانا اس کا چیریٹی ورک‘ ٹم کک نے چیریٹی ورک کےلئے ایک دلچسپ طریقہ ایجاد کیا‘ یہ طریقہ اس کی ذات کی طرح انوکھا ہے‘ یہ اپنی دولت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ سال میں اپنی زندگی کا ایک گھنٹہ نیلام کرتا ہے‘ یہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی دینے والے شخص کے ساتھ لنچ کرتا ہے‘ تصویریں اترواتا ہے اور اسے اپنا دوست ڈکلیئر کرتا ہے‘ٹم نے اس کا اعلان 2012ءمیں کیا‘2013ءمیں پہلی بولی لگی‘ 2013 میں لنچ کے ایک گھنٹے کی بولی6 لاکھ 10 ہزار ڈالر (ساڑھے چھ کروڑ روپے)‘ 2014ءمیں تین لاکھ 30 ہزار ڈالر (ساڑھے تین کروڑ روپے)‘ 2015ءمیں دو لاکھ ڈالر (سوا دو کروڑ روپے) اور 2016ءمیں یہ بولی 5 لاکھ 15 ہزار ڈالر لگی‘ یہ پاکستانی روپوں میں ساڑھے پانچ کروڑ روپے بنتے ہیں‘ یہ دنیا کا مہنگا ترین گھنٹہ ہے‘ ٹم کک اس گھنٹے میں کامیاب بولی دہندہ کے ساتھ لنچ کرتا ہے‘ تصویریں اترواتا ہے‘ اسے آٹو گراف دیتا ہے‘ اسے اپنا ”بیسٹ فرینڈ“ ڈکلیئر کرتا ہے اور اسے ایپل کی نئی پراڈکٹ کی لانچ کے دو پاس جاری کرتا ہے‘ بولی کی یہ رقم براہ راست ملک کے مختلف چیریٹی اداروں کو چلی جاتی ہے۔یہ بہت اچھا آئیڈیا ہے‘ یہ آئیڈیا امریکا میں تیزی سے مشہور ہو رہا ہے‘ ٹم کک نے چند دن قبل امریکا کے تمام کامیاب سی ای اوز‘ ہالی ووڈ کے بڑے اداکاروں‘ موسیقاروں‘ مصوروں اور رائٹرز کو گھنٹہ گروپ بنانے اور یہ تکنیک استعمال کرنے کی دعوت دی‘ ٹم اگر یہ گروپ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور امریکا کے وہ تمام لوگ اس کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں جن کے ساتھ لوگ تصویریں بنوانا چاہتے ہیں‘ لنچ اور ڈنر کرنا چاہتے ہیں اور دنیا کے وہ امیر لوگ جو اپنے پسندیدہ اداکاروں‘ اداکاراﺅں‘ مصوروں‘ موسیقاروں‘ مصنفین اور سی ای اوز کے ساتھ وقت گزارنے کے طلب گار ہیں اور یہ امراءاگر باقاعدہ بولی دے کر ان لوگوں کے گھنٹے خرید لیتےہیں تو یہ دنیا کا سب سے بڑا چیریٹی سرکل ہو گا اور یہ دنیا کی شکل بدل دے گا‘ ٹم کک کا خیال ہے اگر امریکا کے دوسرے سی ای اوز یا سلیبریٹیز اس کے ساتھ شامل نہیں ہوتے تو بھی بولی کا یہ سلسلہ جاری رکھے گا‘ یہ گھنٹے بھی بڑھاتا رہے گا‘ یہ شروع میں سال میں صرف ایک گھنٹہ بیچے گا‘ پھر دو‘ تین اور دس گھنٹوں تک جائے گا اور آخر میں اپنی پوری زندگی نیلام کر دے گا‘ یہ اپنی پوری زندگی بیچ کر خیرات کر دے گا اور یہ دنیا کی انوکھی خیرات ہو گی‘ ایک ایسے شخص کی خیرات جس کا ایک ایک لمحہ سونے کا بھاﺅ بکا مگر اس نے وقت کا یہ سونا ضرورت مندوں میں بانٹ دیا‘ امریکا کے مختلف خیراتی ادارے دن رات ٹم کک کےلئے دعا کرتے ہیں لیکن ٹم کک روز صبح‘ دوپہر اور شام اس کمپیوٹر کو دعا دیتا ہے جس کی غلطی نے اس کی زندگی کی سمت درست کر دی‘ جس نے دنیا کی مادیت میں بھٹکتے انسان کو سیدھا راستہ دکھا دیا۔