جی میری اس مسئلے کی طرف ذاتی توجہ تقریبا ایک سال پہلے ایک بدمذہب خاتون کی پوسٹ ک ےذریعے ہوئی تھی، جس نے گنبد خضرا کے اوپر نظر آنے والے “ابھار” کو نہ صرف ایک قبر لکھا ہوا تھا، بلکہ اس کو جواز بناتے ہوۓ گنبد خضرا کو شہید کر دینے کا مشورہ بھی موجود تھا، کہ اس پر ایک بندے کی قبر ہے، جب کہ قبر زمین پر ہونی چاہئے۔۔۔۔ استغفراللہ من کلّ ذنب وّ اتوب الیہ۔ جسے دیکھ کر میرا دل تو بالکل بھی اس چیز کو نہ مانا، کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ اس کے متعلق کچھ علم نہ تھا تو سوچا کہ میں اس کی ضرور تحقیق کروں گا، اور دیکھوں گا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔
سو میں نے اس کا اپنے ایک عزیز اہلسنت دوست سے ذکر کیا، تو وہ کہنے لگے ہاں، سعود بن عبدالعزیز کے دور مین ایک شخص کو روضۂ مبارک پرچڑھایا گیا تھا، کہ اس کو شہید کیا جا سکے، لیکن اللہ عزّوجلّ کو یہ منظور نہ تھا سو اس پر بجلی گری، اور وہ وہیں مر گیا، جسے بعد میں نیچے اتارنے کی بہت کوشش کی گئ، لیکن ناکامی رہے، پھر اس شخص کو ادھر (یعنی اوپر) ہی دفنا دیا گیا۔۔۔۔۔ لیکن نجانے کیوں میرا دل نہیں مان رہا تھا اس بات کو، کہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر کسی کی قبر بھی ہو سکتی ہے۔۔ اور اگر خدانخواستہ ایسا ہے بھی، تو یہ تو اس گنبد خضرا کو شہید کرنے کی نیت کے جرم میں ایسا ہوا تھا، تو پھر اسے دوبارہ کیوں شہید کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جب کہ ان کے سامنے اس آدمی کی عبرتناک موت موجود ہے۔۔۔۔ بہت ہی عجیب و غریب سوالات تھے۔۔ میں نے سوچا میں مدینہ منورہ جاؤں گا اور وہاں کے رہائشی لوگوں سے پوچھوں گا جو دوست ہیں کہ یہ کیا ماجرا ہے۔۔۔۔
سو جیسے ہی میرا اگلی بار مدینہ منورۃ جانا ہوا، تو صلوۃ و سلام اور حاضری کے بعد میں نے اس کے متعلق دوستوں سے عزیزوں سے پوچھنا شروع کیا، اور پھر مسجد نبوی شریف کی انتظامیہ کے ایک اہلکار سے بھی بات ہوئی، لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا، کہ یہ کیا ہے، کسی کو بھی نہیں پتہ، یا شاید کوئی بتانا ہی نہین چاہ رہا، لیکن کوئی قبر بھی تو نہیں بتا رہا، کہ یہ کوئی قبر ہے۔ اس لئۓ مجھے زیادہ تشویش ہوئی، اسی سوچ میں گم وہیں صحن میں بیٹھا تھا، کہ ایک سعودی دوست سے ملاقات ہوئی، جس سے تقریبا پچھلے 3 سالوں سے ملاقات کا وہیں سلسلہ جاری ہے، وہ وہاں کا رہائشی بھی تھا، میں نے اس سے پوچھا، کیوں بھئ یہ کیا ماجرا ہے؟؟؟ میں نے گنبد خضرا کے اوپر اس ابھار کی تصویر اپنے کیمرہ میں سیو کر لی تھی، جو اس کو دکھائی، وہ خود بھی ایک بار دیکھ کر پریشان ہو گیا، اور لاعلمی کا اظہار کیا، لیکن جب میں نے اسے بتایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کوئی قبر ہے، میری اتنی سی بات پر اس کو تو رنگ ہی جیسے سرخ ہو گیا، او رآنکھوں میں پانی میں واضح دیکھ رہا تھا، اور وہ بس اتنا بولا، کہ کیہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کے اوپر کسی کی قبر؟؟؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی قبر مبارک کے اوپر کسی کی قبر؟؟؟ کیا اللہ نہیں ہے زمین و آسمان میں کہیں۔ بس، میں نے اس کو بتایا، کہ میرا بھی دل نہیں مان رہا تھا، اور میں بھی پہلی بار ہی غور کر رہا ہوں۔ خیر اس نے مجھے کہا، کہ تم ابھی جاؤ، لیکن مجھے موبائل پر کال کر کے پوچھنا، میں ادھر ادھر سے دریافت کر کے رکھوں گا ان شا اللہ ۔۔
پھر واپس گھر پہنچتے ہی اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ یہ واقعۃ سعود بن عبد العزیز کے دور کا ہے، یعنی لگ بھگ 90 سال پرانا، تو ضرور اس کا ذکر “تاریخ نجد و حجاز” از مفتی غلام فرید ہزاروی صاحب نے اپنی کتاب میں کیا ہو گا، کیوںکہ ان کی “تاریخ نجد و جحاز” اس حوالے سے انتہائی بہترین کتاب ہے، جس میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی مکمل جوالہ جات کے ساتھ نقل کیا گیا ہے، سو میں نے پھر فورا “تاریخ نجد وحجاز” کا رخ کیا، جہاں مجھے اس کتاب کے” باب نمبر:4 اور صفحہ نمبر:3 پر یہ واقعہ مل گیا، جس کی عبارت یوں ہے، کہ جو آدمی قبہ شریفہ (یعنی گنبد خصرا) کو شہید کرنے کی نیت سے اوپر چڑھے تھے، ان میں سے 2 آدمی نیچے گر کر ہلاک ہو گئے۔۔۔ ” یہ عبارت آپ بھی اس لنک پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔۔۔۔ اس تاریخی کتاب سے ایک بات تو واضح ہو گئ، کہ نمبر1: اوپر چڑھنے والے آدمی ایک سے زیادہ تھے، نمبر:2 وہ اوپر نہیں، بلکہ نیچے گر کر ہلاک ہوۓ، ان پر کوئی بجلی نہیں گری تھی، نمبر3: اس واقعہ میں 2 آدمی ہلاک ہوۓ تھے، یعنی اگر اوپر قبر ہی ہوتی، تو پھر 2 ہوتیں، ایک نہیں۔
لہذا، حاصل کلام یہ نکلا، کہ روضۂ مبارکہ پر قبر والی بات بھی “خارجیوں” کی طرف سے ہی اڑائی ہوئی ہے، جو سنتے سناتے کہاں کہاں تک جا نکلی، ورنہ اس میں کوئی حقیقت نہیں۔۔۔ لیکن یہ تو تھا سوال کا ایک حصّہ، کہ قبر ہے یا نہیں، لیکن ثابت ہوا وہاں کوئی قبر نہیں۔۔۔تو پھر دوسرا حصّہ اس سوال کا باقی ہے، کہ وہاں ہے کیا پھر؟؟؟؟؟ جس کا جواب بالکل بھی نہ مل رہا تھا، حتی کہ اس مدنی دوست کو بھی کال کی تقریبا ایک مہینہ بعد، لیکن اس کا کہنا تھا واقعہ بہت طویل ہے اور ایک لمبی ریسرچ کی ضرورت ہے، میں سمجھ گیا، یا تو وہ اس بات کو ظاہر ہی نہیں کرنا چاہتے، یا پھر واقعہ ہی بہت قدیم چیز ہے، جس کیلئے بہت ریسرچ درکار ہو۔ لیکن اسی اثنا میں اللہ سبحانہ وتعالی کی مدد حاصل ہوئی، اور یوٹیوب پر خطاب جناب مفتی حنیف قریشی صاحب کا سن رہا تھا، جس میں انہوں نے ایک حدیث شریف بیان کی، جو کچھ اس طرح سے تھی۔ روایت ہے کہ: ” مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے، تو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے اپنی بدحالی کی شکایت کی، آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے فرمایا، حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی قبر مبارک کے پاس جاؤ، اور اس سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولوکہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے راوی کہتے ہیں، کہ انہوں نے ایسا ہی کیا، پس پھر بہت زیادہ بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ آیا اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ جیسے چربی سے پھٹ پڑیں گے، لہذا اس سال کا نام ہی “عام الفتق” (سبزہ و کشادگی کا سال) رکھ دیا گیا”۔
اس حدیث مبارکہ کو روایت کیا ہے، امام دارمی، نے ابو الجوزاء اوس بن عبداللہ سے صحیح اسناد کے ساتھ۔، مزید اس کے حوالہ جات کچھ یوں ہے،۔۔
سنن دارمی:1:43، رقم: 93
الوفاء باحوال المصطفی، 2:801
شفاء السقام:128
المواہب اللدنیہ، 4:276
شرح الزرقانی، 11:150
اس حدیث مبارکہ کے بعد ہمیں اس دوسرے سوال کا با آسانی جواب مل جاتا ہے، کہ جن لوگوں نے گنبد خضرا بعد میں تعمیر کیا تھا مسجد کی شان و شوکت کی خاطر، انہوں نے ہی ضرور اس میں یہ کھڑکی بھی چھوڑی ہو گی، کیوں کہ وہ لوگ اہلسنت والجماعت تھے، اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے زمانے کے نہ صرف مٹی اور پتھر بچا بچا کر رکھے تھے، بلکہ جب کسی تاریخی مسجد وغیرہ کی مرمت کرنی ہوتی، تو انہیں پرانے پتھروں اور مٹی سے اس کی مرمت کرتے، سو اس معاملے میں ان کی ایمانداری کو دیکھتے ہوۓ، ہم کہہ سکتے ہیں، کہ یہ وہ کھڑکی ہی ہے، جو سلطنت عثمانیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور امہات المؤمنین کے قول مبارک کو انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ نظر میں رکھا، اورگنبد خضرا کی تعمیر کے وقت ٹھیک اسی جگہ اسی طرح گنبد خضرا مین بھی وہ کھڑکی چھوڑی۔۔۔۔ جو ہمیں اس تصویر میں بھی نظر آرہی ہے۔۔۔ جس کی تصدیق بھی وقت حاضر کے علماء کر رہے ہیں، باقی اس کے متعلق قبر کہنا انتہائی خبیث قسم کا جھوٹ اور من گھڑت کہانی ہے، جو یقینا شان رسالت سے بغض و عداوت رکھنے والے منافق خارجیوں نے ہی پھیلائی ہو گی، جو اس کے ساتھ یہ مشورہ بھی چلتا رہتا تھا، کہ اس گنبد خضرا کو شہید کر دیا جاۓ،،، اللہ کی لعنت ہو ایسی عقلوں پر اور ایسی سوچوں پر۔۔ اور اللہ عزّوجل محفوظ فرماۓ ہمیں شیطان کے فتنے سے، خارجیوں کے فتنے سے، اور دجال کے فتنے سے ۔ آمین ، ثم آمین، یا ربّ العلمین۔۔۔
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تسلیما کثیرا