جنگ صلیب و ہلال زوروں پر تھی اور سلطان صلاح الد ین ایوبی مجاہد اعظم کو روپے کی ضرورت تھی لیکن روپیہ کہیں سے فراہم نہ ہوا، ایک افسر نے سلطان کی توجہ ایک یہودی
دولت مند کی طرف مبذول کرائی۔ جو دارالسلطنت میں کاروبار کرتا تھا۔ سلطان نے فوراً اسے طلب کر لیا۔ اس یہودی کی فہم و فراست بھی مشہور عام تھی۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہودی سے پوچھا ’’بتاؤ یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں سے تمہاری رائے میں کون سا مذہب حق ہے؟‘‘یہودی اس سوال سے بہت سٹ پٹایا اور سوچنے لگا کہ اگر وہ یہ جواب دیتا ہے کہ اسلام صحیح مذہب ہے تو سلطان سوال کرے گا کہ جب تم اسلام کو سب سے سچا مذہب تسلیم کرتے ہو، تو خود اسلام کیوں قبول نہیں کرتے؟ اگر عیسائیت یا
یہودیت کو افضل قرار دیتا ہے، تو سلطان برا مانے گا اور نہیں معلوم کیا سزا دے؟ یہودی نے سوال سن کر لمحہ بھر تامل کیا اور نہایت ادب و عجز کے ساتھ عرض کیا۔اے سلطان! اس سوال پر مجھے ایک حکایت یاد آ گئی۔ ایک بیحد دولت مند باپ تھا۔ اس کے کئی بیٹے تھے جو
سب کے سب نہایت مطیع و فرمانبردار، خدمت گزار اور نیکوشعار تھے۔ باپ کو قدرتی طور پر سب سے بیحد محبت تھی لیکن ایک بیٹے پر اس کی زیادہ توجہ تھی۔ لیکن اشارہ کنایہ سے بھی ظاہر نہ ہونے دیتا کہ کونسا بیٹا اس کی نگاہ میں دوسروں سے فائق تر ہے اور وہ اسے
اپنی خاص انگوٹھی دینا چاہتا تھا۔ مگر یہ بھی نہ چاہتا کہ دوسرے بیٹوں کو پتہ چل جائے اور حسد کرنے لگیں۔ اس لئے اس نے اصل انگوٹھی کے نمونے کی کئی انگوٹھیاں بنوائیں اور وہ خاص انگوٹھی علیحدہ رکھی اور چپکے سے اس بیٹے کو دی
جس پر اس کی خاص توجہ تھی اور باقی انگوٹھیاں سب بیٹوں میں تقسیم کر دیں۔ کوئی نہ جان سکا کہ وہ خاص انگوٹھی کس کے پاس ہے۔ لہٰذا مذہب کے متعلق بھی ہر شخص کا یہی خیال ہے‘‘۔سلطان یہ حکایت سن کر مسرور ہوا اور یہودی کو خلعت فاخرہ دے کر رخصت کیا۔ جب
یہودی کو یہ معلوم ہوا کہ سلطان کی طلبی قرض روپیہ کیلئے تھی۔ تو وہ اشرفیاں خچروں پر لدوا کر دربار میں آیا اور خدمت سلطان میں پیش کر دیں۔ سلطان نے دستاویز لکھوا کر اپنی مہر لگا دی۔ جب معرکہ صلیب و ہلال سے کامیاب پلٹا تو یہودی کو بلا کر قرض مع مزید انعامات کے ادا کیا اور جب تک یہودی زندہ رہا اس پر عنایت سلطانی جاری رہیں۔