ڈاکو کے بیٹے نے ضد کرنا شروع کردی کہ اسے بھی ڈاکہ ڈالنےکے لیے ساتھ جانا ہے مگر باپ یہی کہتا رہا کہ تو ابھی اس قابل نہیں ہوا۔ بالآخر بیٹے کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور اس شرط پر ساتھ لے جانے کے لیے رضامند ہوگیا کہ پہلے ٹریننگ مکمل کرنا ہوگی۔ بیٹا خوش ہوگیا اور ٹریننگ شروع ہوگئی۔ باپ نے تمام تر حربے سکھائےہر طرح کے داؤپیچ جو اس کے کام آسکیں سکھادئیے۔
بیٹا اب تک ہر امتحان پر پورا اتر رہا تھا۔ جب دیکھا بیٹا ہر لحاظ سے تیار ہے تو اسے پچاس فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگانے کو کہا۔ یہ اس کا آخری امتحان تھا۔ وہ اتنی بلندی پر پہنچ کر ڈرنے لگا۔ یہ آخری امتحان اسے قطعی ناممکن دکھائی دے رہا تھا لہذٰا نیچے اتر آیا اور کہنے لگا کہ اتنی بلندی سے کودنے سے اس کی موت واقع نا بھی ہوئی تو بھی کم سے کم معذور ضرور ہوجائے گا اس کے باپ نے تسلّی دی اور کہا کچی زمین ہے تمہیں کچھ نہیں ہوگا ہمت کرکے کود جاؤ۔ بیٹا نہیں مان رہا تھا مگر اس کا باپ مسلسل اصرار کرتا رہا اور کہتا رہا دیکھو میں ہوں نا نیچے۔ مجھ پر بھروسہ رکھو اور کود جاؤ۔ امتحان سر کرنا بیحد ضروری تھا۔ بیٹا ڈرتے ڈرتے آخر کود ہی گیا۔ اس کے بعد اس کی آنکھ ہسپتال میں کھلی جہاں بائیں جانب اس کا باپ اس کا ہاتھ تھامے بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ہوش میں آتے ہی شکوہ شروع کردیا کہ میں نا کہتا تھا کہ چوٹ لگ جائے گی۔ یہ کیسا امتحان تھا جس میں شکست واضح دکھائی دے رہی تھی۔ نتیجتاً میں ناکام رہا۔ کیا یہی اس کا مقصد تھا؟ تو اس کے باپ نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا “ہاں تم بری طرح ناکام رہے اس امتحان کا مقصد تمہیں یہ سبق سکھانا تھا کہ جو کام تمہارا دل اور تمہاری عقل تسلیم نہیں کرتی اسے کرنے کو خواہ تمہارا باپ بھی بولے تو مت کرو” ہم جس پر اعتماد کرتے ہیں اس کی اسی قدر اندھی تقلید میں مبتلا ہوجاتے ہیں وہ گہری کھائی میں کودنے کا کہتا ہے اور ہم نعرے لگاتے ہوئے کود جاتے ہیں۔
بعد میں ایک دوسرے کو بتا رہے ہوتے ہیں “ہاں یار میرا دل بھی مطمئن نہیں تھا۔ ہاں مجھے بھی غلط لگ رہا تھا۔ بالکل ایسا نہیں ہونا چاہئیےتھا۔ وہ ایسا لگتا تو نہیں تھا جیسا کر گزرا ہے۔۔ خیر خود آگے جا کر بھرے گا”