مسلمانوں کے عظیم لیڈر اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ قیام پاکستان کے بعدگورنر جنرل کی حیثیت سے ملک چلا رہے تھے ،ایک دن برطانیہ کے سفیر نے کہا کہ برطانیہ کے بادشاہ کا بھائی آج پاکستان کے ائیرپورٹ پہنچ رہا ہے آپ انہیں لینے ائرپورٹ جایئے گا ،قائداعظم نے انتہائی دبدبے سے فرمایاآپکے بادشاہ کے بھائی کو ائرپورٹ لینے چلا جاؤں گا لیکن ایک شرط پر کے کل جب میرا بھائی برطانیہ جاے گا تو آپ کا بادشاہ جارج اسکو لینے ائرپورٹ جاے گا ، یہ سن کر سفیر اپنا سا منہ لے کر
رہ گیا ۔ایک دفعہ قائداعظم کے ملازم نے وزیٹنگ کارڈ آپکے سامنے رکھا کے صاحب یہ شخص آپ سے ملنا چاہتا ہے ، اس کارڈ پر انکے بھائی کا نام لکھا تھا اور ساتھ میں تعارف میں لکھا تھا برادر آف محمد علی جناح ، یہ پڑھتے ہی قائداعظم نے کارڈ پھاڑ کر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہلا بھیجاکہ ’’اس کو کہہ دوکہ اس طرح کبھی میرے نام کا حوالہ استعمال نہ کرے ۔قائداعظم کے دفتر کا فرنیچر آرڈر کیا گیا جو کے سینتیس روپے تھا ، آپ کو خزانے سے ادائیگی کے لیے دستخط کرنے کے لیے پیش کیا گیا آپ نے بل دیکھا تو پوچھا اس میں یہ سات روپے کی فالتو کرسی کیوں آرڈر کی ہے سیکٹری نے کہا صاحب یہ فاطمہ جناح صاحبہ کے لیے ہے جب وہ دفتر آتی ہیں تو انکے بیٹھنے کے لیے منگوائی ہے ، قائداعظم نے سات روپے کاٹ کر تیس روپے کا بل منظور کرتے ہوئے فرمایا کرسی کے سات روپے فاطمہ سے جا کر وصول کرو ، قومی خزانہ نہیں دے گا ۔