میں جہاں سے گھر کا سودا وغیرہ خریدتا ہوں، اس کے باہر ایک بوڑھا موچی سڑک کے کنارے بیٹھ کر جوتے مرمت کرتا ھے۔ جب میں نے اسے پہلی دفعہ دیکھا تو اپنی پشاوری جوتی اسے پالش کیلئے دے دی، حالانکہ اسے ایک دن پہلے ہی میں نے پالش کیا تھا۔ جب اس بوڑھے نے جوتی پالش کردی تو میں نے معاوضہ پوچھا۔ اس نے 20 روپے بتایا۔ میں نے اسے 40 روپے دے دیئے جو اس نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ رکھ لئے۔اگلی دفعہ جب دوبارہ وہاں جانا ہوا تو اتفاق سے اس دن میری جوتی کی سلائی کچھ
ادھڑی ہوئی لگ رہی تھی۔ میں خود وہاں قریب دکان میں بیٹھ گیا اور وہاں سے اپنا جوتا اس بزرگ کو مرمت کیلئے بھجوا دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ میرا جوتا لے کر آگیا۔ میں نے معاوضہ پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ جوتا بالکل ٹھیک تھا اور مجھے صرف وہم ہوا تھا کہ وہ ادھڑا ہوا ھے۔ مجھے حیرت ضرور ہوئی لیکن میں نے شکریہ ادا کرکے جوتا پہن لیا۔ گھر آکر جب وہ جوتا اتار کر چیک کیا تو اس پر سلائی کے واضح نشان نظر آرہے تھے۔ مجھے سمجھ لگ گئی کہ اس عزت نفس سے بھرپور شخص کو اس دن میں نے جو اضافی 20 روپے دیئے تھے، آج اس نے وہ احسان اتار دیا۔ چند دن بعد میرا پھر ادھر جانا ہوا۔ اس دفعہ میں نے جوتی پالش کیلئے دی اور ایک دفعہ پھر اسے 40 روپے دے دیئے۔ اس نے ایک دفعہ پھر ہچکچاہٹ سے 20 اضافی روپے رکھ لئے۔ آج جب میں دوبارہ اس طرف گیا تو اتفاق سے میری جوتی مٹی سے اٹی ہوئی تھی۔ میں نے اس بوڑھے شخص کو پالش کیلئے دی اور خود تھوڑا حساب کتاب میں لگ گیا۔ جب فارغ ہوا تو یاد آیا کہ میں نے جوتی پالش کیلئے دی تھی۔ لڑکے کو بھیجا کہ وہ جوتی لادے۔ لڑکا گیا اور واپس آکر بولا کہ وہ موچی وہاں سے جاچکا تھا۔شاید آج اسے کوئی ضروری کام تھا۔ میں نے پوچھا کہ میری جوتی کا کیا بنا؟ لڑکے نے جواب دیا کہ وہ آپ کی جوتی پالش کرکے باہر دروازے کے پاس رکھ گیا ہے۔مجھے سمجھ لگ گئی کہ اس عزت دار شخص نے پچھلی دفعہ کے اضافی 20 روپوں کا ایک دفعہ پھر حساب چکا دیا۔ یہ ایک بوڑھے موچی کا واقعہ ھے جو شاید دن میں اتنا بھی نہیں کما پاتا کہ اپنے بچوں کیلئے ایک کلو چکن ہی خرید سکے۔لیکن عزت نفس اور خودداری اتنی کہ کسی سے اضافی پیسے لینا گوارا نہیں، چاھے وہ اپنی خوشی سے ہی دے دے۔ ایک ہمارے حکمران ہیں جو ہمارے خون پسینے کی کمائی سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، اپنی اولادوں کے نام پر بیرون ملک آف شور کمپنیاں بناتے ہیں، لندن، دبئی اور امریکہ میں اربوں ڈالر کی پراپرٹیز بناتے ہیں اور پھر بھی ان کی ہوس ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ان حکمرانوں سے تو وہ بزرگ موچی اچھا، جس میں کم از کم عزت نفس اور احسان مندی تو تھی!!!