آخری دیدار کے لیے جب اس خاموش جسم کے پاس میں پہنچی اور چہرے سے سفید کپڑا ہٹایا تو روح اور جسم کے تعلق کی حقیقت میرے سامنے کھلی، وہ بہت خوبصورت تھی۔ سب لوگ ہی اسکی خوبصورتی کی تعریف کرتے تھے۔ ہلکے سے بناؤ سنگھار سے چار چاند لگ جاتے تھے۔ بڑی بڑی روشن آنکھیں، دودھ جیسی رنگت اور گلابی ہونٹ۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی خوبصورتی اس حد تک شفاف ہوتی ہے۔عمر قریب بیس سال تھی، یونیورسٹی سے واپس آتے گاڑی کے ساتھ ٹکر لگنے سے وہ جانبر نہ ہو پائی۔ گھر بس جسم لوٹا
اور روح وہیں کہیں رہ گئی۔ پہلے پہل جب خبر مجھ تک پہنچی تو یقین نہیں آیا۔ میں دوڑتی ہوئی اسکے گھر پہنچی، ہر آنکھ اشک بار تھی ۔ ایک پل کے لیے تو لگا شاید میں ہی مر گئی ہوں۔ حواس پہ قابو پاتے میں اسکی لاش کے پاس پہنچی، کفن ہٹا کے چہرہ دیکھا۔; یہ تو وہ تھی ہی نہیں۔ نہ وہ روشن آنکھیں نہ جگمگاتا چہرہ نہ وہ گلابی ہونٹ۔ آنکھیں بے نور تھیں، چہرہ سیاہی مائل اور ہونٹ کالے پڑ گئے تھے۔ میرے دل اور دماغ میں ایک عجیب کشمکس تھی کہ زندگی تو ختم ہوئی سو ہوئی پر حسن تو جسم کی امانت تھا، وہ کہاں کھو گیا؟ ہاں شاید موت ہی اتنی بھیانک چیز کا نام ہے جس کے سامنے حسن بھی ٹک نہیں پایا ہوگا۔ سارا الزام موت پہ ڈالے میں واپس مڑی۔ ایک دم سے میرے اندر کہیں سے آواز آئی حسن کی وابستگی جسم سے نہیں روح سے ہے، خاک تو خاک ہوتی ہے، نہ خوش شکل نہ بد شکل۔ جب روح نکلی تو حسن کہاں ٹھہرتا؟ مجھے اب سمجھ آیا، میں غلط جگہ وقت گنوا رہی تھی۔ جس جسم کے سنگھار میں میں نے اتنی تگ ودو کی اسکی حقیقت ہی کچھ اور تھی۔ ضرورت روح کو سنوارنے کی تھی اور میں مٹی کا تودہ سنوارنے میں لگی رہی۔