مولوی مصطفی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ دلی میں جمنامیں سیلاب آیا جس سے قریب کے قبرستان کی کچھ قبریں اکھڑ گئیں ایک قبر کھلی تو کچھ لوگوں نے دیکھا کہ مردہ پڑا ہوا ہے اور اس کی پیشانی پر ایک چھوٹا سا کیڑا ہے وہ جب ڈنگ مارتا ہے تو پوری لاش لرز جاتی ہے تھرا جاتی ہے اور ا س کا رنگ بدل جاتا ہے تھوڑی دیر بعد جب وہ لاش اپنی اصلی کیفیت پرا ٓجاتی ہے تو وہ پھر ڈنگ مارتا ہےلاش کی پھر وہی کیفیت ہوجاتی ہے ۔ سب دیکھ رہے ہیں اور حیران ہیں۔
ایک دھوبی تھا ، جمناکے گھاٹ پرآیا تھا اس سے دیکھا نہیں گیا ۔ اس نے ایک کنکری اس کو ماری تو وہ کیڑا اچھلا اور ا س دھوبی کی پیشانی پر آکر ڈنگ مارا اور پھر وہیں جا کر بیٹھ گیا وہ دھوبی چلانے لگا اور تڑپنے لگا اس سے کسی نے پوچھا تجھے کیا ہوا ۔ تو اس نے کہا کہ سنو! مجھے ایسی تکلیف ہے کہ مجھے نہ صرف ایک بچھو اور ایک سانپ نے کاٹا ہے اور نہ صرف آگ کا کوئی شعلہ میرے بدن پر رکھ دیا گیا ہے بلکہ مجھے ایسی تکلیف ہے کہ میرے بدن کے ایک ایک عضو میں بلکہ ایک ایک رونگٹے اور بال میں گویا ہزاروں لاکھوں بچھو اور آگ کی چنگاریاں بھر دی گئی ہوں ۔ چنانچہ وہ تین دن تک یوں ہی تڑپتا رہا پھر انتقال کر گیا تو مولوی مصطفیٰ صاحب فرماتے تھے کہ میں سمجھ گیا کہ یہ اس دنیا کا کیڑا نہیں بلکہ بر زخ کے عذاب کی شکل ہے۔ میں نے سوچا کہ صاحبِ قبر کے لئے دوسرا علاج ہے قریب جاکر ہمت کرکے بیٹھا اور کچھ سورتیں ”یٰسین شریف اور قل ہو اﷲ احد“ وغیرہ پڑھنا شروع کیں ، جب میں نے قرآن کریم کی تلاوت شروع کی تو وہ کیڑا چھوٹا ہونا شروع ہوا اور ہوتے ہوتے ذرا سا ہو کر ختم ہوگیا ، جب ختم ہوگیا تو ہم لوگ بہت خوش ہوئے کہﷲ تعالیٰ نے اس کو عذاب سے نجات دی اس کا کفن برابر کرکے قبر بند کر دی گئی ۔ اب اس سے گناہوں کی سزا کا اندازہ لگایئے ، معلوم نہیں اس سے کون سا جرم ہوا ہوگا خدا کے غضب کی کون سی شکل اس میں ہو ، کچھ نہیں کہہ سکتے ۔اﷲ پاک سب کو فکر آخرت نصیب فرمائیں اور عذاب قبر سے محفوظ رکھیں ۔ آمین۔