عثمان بزدار کے حوالے سے اہم نیوز


اس سے زیادہ کم نصیبی کیا ہو گی کہ ہمیں نہ تجربہ کار صنعتکار راس آتا ہے نہ کوئی غریبڑا بزدار ہماری توقعات پر پورا اترتا ہے . اوپری سطح پر بھی ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی .بیورو کریٹوں سے لے کر بینکروں تک، قبائلی سرداروں سے لے کر بیرسٹروں تک، نیم صنعت کاروں سے لے کر جرنیلوں اور کمانڈوز تک، درویش وزیر اعظم سے لے کر ماہرین اقتصادیات اور کھلاڑیوں تک کیسے کیسے سربراہ ہم نے ’’ٹرائی‘‘ کئے لیکن ہر بار نتیجہ؟ وہی ڈھاک کے تین پات. نامور کالم نگار حسن نثار اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ……اب تو سنگر، ایکٹر، پینٹر اور اینکر ہی باقی رہ گئے جن کے بعد باری کسی سینئر تجزیہ کار کی بھی آجائے تو حیرت کیسی؟پاکستان واقعی بہت متنوع اور خوبصورت ملک ہے لیکن یہاں تو خوبصورتی بھی اک المیہ ہے کیونکہاچھی صورت بھی کیا بری شے ہےجس نے ڈالی بری نظر ڈالی ایک المیہ ہمارے ’’اجتماعی ڈی این اے‘‘ کا بھی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جسے دولت یا طاقت مل جائے وہ نارمل رہ ہی نہیں سکتا، عقل کل بن کر دولتیاں جھاڑنے لگتا ہے لیکن معاف کیجئے میں خود بھی ٹوٹے ہوئے چھتر کی طرح حدود سے نکل گیا حالانکہ رونا تو پنجاب کا رونا تھا جس کا تادم تحریر ’’شہکار اعلیٰ‘‘ عثمان بزدار ہے جس کی ’’نیب‘‘ میں پیشی کو میں نے ذاتی طور پر پہلی سنجیدہ بدشگونی قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ وہ ملک ہے جہاں ان لوگوں کی لاٹری بھی نکل آتی ہے جنہوں نے کبھی لاٹری ٹکٹ ہی نہیں خریدا ہوتا.

یہ ایسا ہی ہے جیسے پرائز بونڈ خریدے بغیر کسی کا پرائز بونڈ نکل آئے. ’’بزدار بونڈ‘‘ پی ٹی آئی کی سب سے بڑی تبدیلی اور سرپرائز تھا اور اس سرپرائز کا جادو پورے پنجاب کے سر پر چڑھ کر بول رہا ہے لیکن یا الٰہی! یہ کیا ماجرا ہے کہ ’’بلبل ہے کالی اور توتا ہرا ہے‘‘. چند اخباری سرخیاں ملاحظہ فرمائیں.’’نیب مطمئن نہیں. بزدار سوالوں کے تسلی بخش جوابات نہ دے سکے.‘‘’’ایک گھنٹہ چالیس منٹ پوچھ گچھ. بیشتر سوالات پر لاعلمی کا اظہار کیا.‘‘’’کچھ نہیں معلوم، وقت دیں‘‘ وزیر اعلیٰ کا ہر سوال پر جواب‘‘’’جائیدادوں کا ریکارڈ طلب. 18اگست تک جواب جمع کرانے کی ہدایت‘‘.’’بزدار سے اثاثوں کی تفصیلات طلب. لائسنس کیس میں بغیر سیکورٹی پروٹوکول پیش. جائیدادوں کی خریداری سمیت متعدد الزامات، کئی سوالات. جواب کچھ نہ ملا. ڈی جی نیب سے ملاقات کی درخواست رد‘‘ ’’ لائسنس. وزیراعلیٰ پنجاب نیب میں پیش. جوابات سے اجتناب.‘‘ ’’وزیر اعلیٰ آفس کو بتایا این او سی پورے نہیں ہیں. پرنسپل سیکرٹری راحیل صدیقی کے کہنے پر دستخط کئے.

سابق ڈی جی ایکسائز اکرم اشرف گوندل وعدہ معاف گواہ بن گئے‘‘قارئین! مندرجہ بالا سطور میں نے مختلف اخبارات سے مستعار لی ہیں جن میں چند باتیں قابل غور ہیں.پہلی بات بغیر کسی تام جھام کے ایک عام ملزم کی طرح پیش ہونا یقیناً قابل تحسین ہے. دوسری بات دامن کے بے داغ ہونے کا دعویٰ جس پر ہر بھلے آدمی کا فوری ری ایکشن یہی ہو گا کہ اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن کچھ باتیں یقیناً بہت سا کنفیوژن پیدا کر رہی ہیں مثلاً یہ وعدہ معاف گواہ کیوں، کیسے اور کہاں سے آ گئے؟ لیکن شاید شک کا فائدہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہماری روشن روایات کی کنٹی نیوٹی ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اس کے معتمد ترین یہی کچھ کر گئے تھے تو بزدار بھولا بھالا کس شمار قطار میں لیکن یہ سوال ضرور پریشان کرتا ہے کہ عثمان بزدار کے اقتدار پر ان کی جو صفت، خوبی، اچھائی، کوالیفکیشن بہت زیادہ ہائی لائٹ کی گئی وہ تھی ان کی سفید پوشی. یہاں تک کہ ’’بجلی سے محرومی‘‘ بھی ان کا میرٹ قرار پائی تھی. سمجھ نہیں آتی کہ ایک سفید پوش آدمی کے پاس اتنی جائیدادیں کہاں سے آ گئیں جن کی تفصیلات تک یاد نہیں. چار چھ جائیدادیں بھی ہوں تو ٹپس پر ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں ’’یاد نہیں، علم نہیں، خبر نہیں‘‘ کا ورد سمجھ نہیں آتا.

ایسا سوال نواز شریف جیسے ’’رئیس الرئوسا‘‘ سے کیا جائے اور اس کی یادداشت جواب دے جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر کوئی ’’سفید پوش‘‘ بھی سوچ میں پڑ جائے تو ہر بندے کا سوچ میں پڑنا بنتا ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ دو سال کے اندر اندر سفید پوش سر تا پا ’’رنگین‘‘ ہو گیا.اک اور امکان ہے جسے رد نہیں کیا جا سکتا کہ پیشی سے پہلے ہی سیانوں سے مشاورت کے نتیجہ میں یہ سٹرٹیجی طے کر لی گئی ہو کہ منہ زبانی جواب دینا ہی نہیں تاکہ بعد ازاں وکلاء کی مشاورت سے پیشہ ورانہ قسم کا جواب، ڈرافٹ تیار کیا جا سکے لیکن یہ طے سمجھیں کہ بزدار اقتدار کیلئے یہ پہلی، باقاعدہ اور سنجیدہ قسم کی بدشگونی ہے جو کسی بھی قسم کا شگوفہ کھلا سکتی ہے اور یہ بات تو میں شروع میں ہی عرض کر چکا ہوں کہ ہم میں سے اکثریت کو دولت اور طاقت آسانی سے ہضم نہیں ہوتی.بدہضمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور بدہضمی کے نتائج سے بھلا کون واقف نہیں.