گوگل میں اہم ترین عہدہ چھوڑ کر پاکستان آنے والی تانیہ نے کیا کہا؟


پاکستان میں یو ٹیوب بین کر نے پر کئی قسم کے تنازے اٹھ گئے ہیں کیایہ واقع ملک کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدورس نے سپریم کورٹ کی جانب سے یوٹیوب کی بندش کا عندیہ دینے کے بعد اس کی ممکنہ بندش کی مخالفت کی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں تانیہ ایدورس نے لکھا کہ جب 3 سال تک پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی تھی اس وجہ سے ہمارے مواد بنانے والے ماحولیاتی نظام کو بھی محدود رکھا

جس نے اب آگے بڑھنا شروع کیا ہے اس سے ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایک علیحدہ ٹوئٹ میں کہا کہ ہماری توجہ پالیسی اور بات چیت کے ذریعے مواد کی بہتر حالت کو یقینی بنانے پر مرکوز ہونی چاہیے۔تانیہ ایدورس نے کہا کہ غیرمعمولی ظالمانہ اقدامات جیسا کہ پابندی سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوگا اور یہ ہمیں ڈیجیٹل پاکستان کے ویژن کے حصول سے روک دے گا۔علاوہ ازیں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ عدالتیں اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) مورل پالیسنگ اور بندش کے معاملے سے دور رہیں۔فواد چوہدری نے کہا کہ انٹرنیٹ پر مبنی ایپس پر پابندیاں، پاکستان کی ٹیک انڈسٹری کو نقصان پہنچائے گی اور ٹیکنالوجی کی ترقی مستقل طور پر رک جائے گی، ہم ابھی مشکل وقت سے باہر نہیں آئے۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر قابل اعتراض مواد کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت خارجہ اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا تھا۔عدالتی بینچ کے رکن جسٹس قاضی امین نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ نجی زندگی کا حق بھی ہمیں آئین دیتا ہے، یوٹیوب پر کوئی چاچا تو کوئی ماما بن کر بیٹھ جاتا ہے،

ججز کو شرمندہ کیا جاتا ہے، عدلیہ، فوج اور حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسایا جاتا ہے۔جسٹس قاضی امین نے کہا تھا کہ کل ہم نے فیصلہ دیا اور وہ یوٹیوب پر شروع ہوگیا، ‏ہم تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں، آخر اس کا اختتام تو ہونا ہے۔ساتھ ہی بینچ کے رکن جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ امریکا اور یورپی یونین کے خلاف مواد یوٹیوب پر ڈال کر دکھائیں، کئی ممالک میں یوٹیوب بند ہے، انہوں نے کہا کہ کئی ممالک میں سوشل میڈیا کو مقامی قوانین کے تحت کنٹرول کیا جاتا ہے۔عدالتی ریمارکس کے بعد 22 اور 23 جولائی کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر (یوٹیوب بین) کا ٹرینڈ بھی ٹاپ پر رہا تھا اور کئی افراد نے اس کی ممکنہ بندش کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔عام افراد کے ساتھ ساتھ شوبز سے وابستہ شخصیات نے بھی یوٹیوب کی حمایت کی تھی۔پاکستان میں یوٹیوب کی بندش خیال رہے کہ دنیا کی مقبول ترین ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ پاکستان میں ستمبر 2012 سے بلاک تھی جو گوگل کی جانب سے توہین آمیز فلم ہٹائے جانے کے انکار کے بعد بلاک کی گئی تھی۔بعدازاں پی ٹی اے نے ساڑھے 3 ماہ کی بندش کے بعد انٹرنیٹ پروائیڈرز کو یوٹیوب کھولنے کے احکامات جاری کیے تھے

تاہم اس وقت کے وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے یوٹیوب کو دوبارہ بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔اعلیٰ حکام کا کہنا تھا کہ یوٹیوب پر تاحال گستاخانہ مواد موجود ہے جس کے ختم ہونے تک ویب سائٹ کو بحال نہیں کیا جاسکتا۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا تھا کہ جب تک گستاخانہ یا قابل اعتراض مواد کو بلاک کرنے کا کوئی مؤثر انتظام نہیں ہو جاتا، یوٹیوب پر ملک بھر میں پابندی رہے گی۔بعدازاں 2015 میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی نے حکومت سے یوٹیوب کے معاملے پر قانون سازی کرکے عوام کی یوٹیوب تک رسائی یقینی بنانے کی سفارش کی تھی۔تاہم پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین متبادل چینلز کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کررہے تھے

اور پاکستانی صارفین کو یوٹیوب تک رسائی دینے کے عمل کی رفتار میں اضافے کے حوالے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کی مدد اور تحقیق کے لیے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔جس کے بعد 2016 میں یوٹیوب کو تقریباً ساڑھے 3 سال تک بند رہنے کے بعد مقامی ورژن لانچ ہونے کے بعد کھول دیا گیا تھا جس کے تحت حکومت کو یہ اختیارات حاصل تھے کہ وہ غیر مناسب مواد کو حذف کردے یا اسے حذف کرنے کی درخواست کرسکے۔بعدازاں ستمبر 2016 میں یوٹیوب‘نے باضابطہ طور پر پاکستان سے بھی اپنی ویب سائٹ لانچ کرنے کا اعلان کیا تھا.اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس سیکشن میں ضرور کریں۔