راولپنڈی میں ہونے والے اس واقعے نے پتھر دل لوگوں کے بھی زمیر کو جگا دیایہی تو قیامت کی نشانیاں ہیں بیٹے کی جانب سے ماں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ویڈیو وائرل ہونے پر عوام میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اس معاملے پر سوشل میڈیا پر بھرپور آواز بلند ہونے کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کر کے کارروائی کا آغاز کردیا۔ویڈیو وائرل ہونے پر حکام نے اس کا نوٹس لیا اور سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) راول ڈویژن کے حکم پر تھانہ صادق آباد پولیس کے ایس ایچ او طاہر احمد ریحان نے تشدد کا شکار خاتون گلناز بی بی کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا۔مقدمے کے اندراج کے بعد فوری طور پر خاتون کا طبی معائنہ بھی کروایا گیا تاہم ہسپتال ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کے جسم پر تشدد کے نشانات نہیں ایکسرے کی رپورٹ ایک ہفتے بعد پولیس کو مہیا کر دی جائے گی۔ ڈھوک علی اکبر کی رہائشی خاتون گلناز بی بی نے پولیس کو رپورٹ درج کراتے ہوئے بتایا کہ ان کا بیٹا ارسلان اور بہو بسمہ آئے روز ان کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرتے رہتے ہیں اور گزشتہ روز بھی دونوں میاں بیوی نے تلخ کلامی کے بعد مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور غلیظ گالیاں دیں۔
اس حوالے سے ڈان نیوز نے جب ایس پی راول ڈویژن رائے مظہر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سی پی او راولپنڈی احسن یونس کے نوٹس لینے کے بعد مقدمہ درج کر کے خاتون کا میڈیکل کروایا اور تفتیش شروع کر دی ہے۔پولیس نے بتایا کہ ملزم ارسلان اور اس کی اہلیہ بسمہ فرار ہیں تاہم ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں اور جلد ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ایس پی کا مزید کہنا تھا کہ ملزم ارسلان کا راولپنڈی کے علاقے خیابان سرسید میں گاڑیوں کا شوروم ہے اور اس کی ایک بیٹی بھی ہے۔بعدازاں پولیس نے بتایا کہ ملزم ارسلان اور اس کی بیوی نے عدالت سے 6 اگست تک کی عبوری ضمانت حاصل کر لی ہے۔پولیس کا کہنا تھا کہ عدالتی روبکار پولیس کو موصول ہو چکی ہے، تاہم دونوں ملزمان مقدمے میں تفتیش میں شامل ہوں گے۔اہلیہ نے زیادتی کی اس لیے نوبت یہاں تک پہنچی، غزالی میراس حوالے سے ڈان نیوز نے خاتون گلناز بی بی کے خاوند غزالی میر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا جب یہ واقعہ ہوا میں گھر میں موجود نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا سانس کی بیماری میں مبتلا ہے
مجھے میری بیٹی نے بذریعہ فون اطلاع دی تو میں گھر پہنچا اور دیکھا کہ گلی میں لوگ اکٹھے ہیں جبکہ گھر میں میرا بیٹا ارسلان فرش پر لیٹا ہوا تھا اور میری اہلیہ بھی زمین پر لیٹی ہوئی تھیں۔غزالی میر کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے نے مجھ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھ لیں ماں نے گاڑی کے شیشے توڑ دیے اور گاڑی کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔غزالی میر کا کہنا تھا کہ میرے نمبر پر جب پولیس نے فون کیا تو میری اہلیہ گلناز نے مجھے پولیس والوں سے بات نہیں کرنے دی اور مجھ سے فون چھین کر پولیس اہلکار کے ساتھ بھی نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ غزالی میر کا مزید کہنا تھا کہ گلناز کی ان کے ساتھ دوسری شادی تھی اور پہلے شوہر سے ان کے چار بچے تھے جن میں سے 2 لڑکیاں شادی شدہ، ایک بیٹا انگلینڈ میں مقیم اور اور دوسرا ارسلان ہے اور وہ بھی شادی شدہ اور ایک بیٹی کا باپ ہے جبکہ میری پہلی اہلیہ سے ایک ہی بیٹی ہے جو ساتھ رہتی ہے۔غزالی میر کا کہنا ہے کہ ان کی اہلیہ بھی زیادتی کرتی ہیں جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک آگئی اور معاملہ پولیس تک پہنچ گیا۔ساس نے ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے تھے،
بسمہ اس حوالے سے ڈان نیوز نے جب ارسلان کی اہلیہ بسمہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو کا صرف ایک حصہ عوام کے سامنے لایا گیا اس سے پہلے میرے خاوند کے ساتھ ان کی والدہ نے جو کیا وہ میں آپ کو بیان نہیں کر سکتی۔ان کا کہنا تھا کہ میری شادی کو 4 سال ہو گئے ہیں اور ڈیڑھ پونے دو سال کی بیٹی ہے 4 سال سے میری ساس مجھ پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں لیکن گھر بچانے کے لیے میں نے کبھی لب کشائی نہیں کی اب جب بات میڈیا تک پہنچی ہے تو مجبوراً تصویر کا دوسرا رخ بتانے کے لیے لب کشائی کر رہی ہوں۔بسمہ نے الزام لگایا کہ میری ساس اور ان کی بیٹی نے میری معصوم بچی کا دودھ تک چھپا دیا تھا، ہر روز مجھ پر ظلم کیا جاتا تھا، اگر بیٹے نے ماں پر ہاتھ اٹھایا ہے تو ضرور اس کی کوئی وجہ ہو گی۔انہوں نے کہا کہ میرے خاوند کی بہن رات گئے پولیس کے پاس گئی اور ان کو ساتھ لے کر آئی لیکن اصل بات اس نے پولیس کو نہیں بتائی میری ساس نے پہلے زیادتی کی اس لیے معاملہ اتنا آگے بڑھا۔ادھر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آر پی او راولپنڈی سے رپورٹ طلب کرلی۔عثمان بزدار نے ملزم کی جلد گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے کہا ماں جیسی ہستی پر تشدد کرنیوالے کو جلد سے جلد گرفتار کیا جائے، تشدد کا نشانہ بننے والی بزرگ خاتون کو انصاف فراہم کیا جائے۔اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس سیکشن میں ضرور کریں