کوررنا وائرس کا دیسی علاج


طب یونانی میں امراض کے علاج کا اصول ایلوپیتھی سے بالکل مختلف ہے ۔ طب میں مرض کے علاج کا بنیادی اصول یہ ہے کہ قوت مدافعت کو مضبوط کرکے مرض کے ازالہ کی تدبیر کی جاتی ہے ۔ قوت مدافعت کو طبی اصطلاح میں طبعیت کہا جاتا ہے اس کادوسرا نام قوت مدبرہ بدن ہے۔اس کے برعکس ایلوپیتھی میں ہر مرض کے جراثیم تلاش کئے جاتے ہیں اور پھر ان کے اتلاف کے لئے ادویات استعمال کی جاتی ہیں ۔

یہ ادویات جہاں جراثیم کا خاتمہ کرتی ہیں وہاں بدن کے اعضاء کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہیں ۔جنہیں دنیا جانبی اثرات یعنی سائیڈایفیکٹ کے نام سے جانتی ہے ۔ یہ طریقہ علاج ہنگامی حالت یعنی ایمرجنسی میں جان بچانے کے لئے تو پڑا مؤثر اور مفید ہے لیکن عام حالات میں اسے استعمال کرنا مریض پر ظلم کے مترادف ہے۔علاوہ ازیں یہ اصول علاج جراثیم کی حد تک اپنے ناگوار جانبی اثرات کے ساتھ تو مؤثر ہے

لیکن وائرسز ارب کریم کے ایسی مخلوق ہے جن پر جراثیم کش ادویات کوئی اثر نہیں رکھتیں ۔ان کا ازالہ بدن کی قوت مدافعت ہی کرتی ہے ۔چنانچہ وائرسی امراض کا جدید علاج بھی ویکسین ہے جو کہ بدن میں مصنوئی مناعت پیدا کرکے کسی مخصوص مرض کا ازالہ کرتی ہے۔ اسی لئے وائرسی امراض میں طب کی ادویات مؤثر طور پر کام کرتی ہے کیونکہ یہ ادویات بنیادی طو ر پر قوت مدافعت کو بڑھاتی ہیں۔نزلہ زکام میں کے علاج میں استعمال ہونے والے جوشاندے اور دیگر ادویات قوت مدافعت کو بڑھاکر ہی مرض کا ازالہ کرتیں ہیں ۔برصغیر میں حکیم اجمل خان کے دور میں جب انفلوئنزا (نزلہ زکام وبائی) ایک وبا کی شکل میں ظاہر ہوا تو حکیم اجمل خان نے ایک مخصوص جوشاندے کی سبیلیں چوکوں میں لگوادیں ۔

ان جوشاندوں کے استعمال کی وجہ واضح طور پر شرح اموات میں کمی واقع ہوئی جبکہ شمالی ہندوستان میں ایسی کوئی تدبیر اختیار نہیں کی گئی اس لئے وہاں اموات کا تناسب بہت زیادہ تھا۔ یہ جوشاندہ طب کی مختلف کتابوں میں مذکور ہے۔ باقی دیکھیے اس وڈیو میں ۔