پاکستان کے اندر اس وقت کرنسی کا جو بحران دیکھنے کو مل رہا ہے شاید وہ پہلے نہیں تھا ڈالر چلانے مرتا ہوا 150 اس کے ہندسے کو عبور کر چکا ہے اور اس وقت مارکیٹ میں 153 پر پر فروخت کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی دیکھنے کو مل رہی ہے ہے اس کی وجہ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام اور حکومت کا معاہدہ ہے کہ جس میں ڈالر کو مارکیٹ کے ریٹ پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ جس طرح مارکیٹ میں ڈالر کو فروخت کیا جائے یا خریدا جائے اسی کے مطابق ڈالر کا ریٹ طے کیا جائے آئیے اس کی وجہ سے پاکستان کے اندر جو مہنگائی دیکھنے کو مل رہی ہے وہ الگ ہیں لیکن اس کے ساتھ ایسے بہت سارے افراد اور ادارے کام کر رہے ہیں کہ جو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور انہوں نے اس وقت عرب روپیہ کما لیا ہے ہے ان میں سے بہت سارے اسٹاک ایکسچینج میں کام کرنے والے افراد ہے بینک کا حصہ ہے اور سیاستدان بھی ہے اور خاص کر پاکستان کے وزیراعظم کے اردگرد موجود ایسے افراد بھی ہیں جو بظاہر دو پاکستان سے حبلوطنی کا دم بھرتے ہیں لیکن ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرنے میں سب سے آگے ہے
ان افراد نے نے ڈالر کو مارکیٹ سے اٹھا کر رکھا ذخیراندوزی کی اور جب ڈالر کا ریٹ بڑھنے لگا تو فورا مارکیٹ میں بہت ریٹ پر بیچ کر اربوں روپیہ دنوں میں کام آئے بھائی اس کے سب سے زیادہ اثرات ہمارے ایکسپورٹ اور امپورٹ پر ہوئے نئے پاکستان میں مہنگائی دیکھنے کو مل رہی ہے اس کی وجہ یہی ڈالر کی پرواز ہے اور ماہرین کے مطابق اگر صورت حال ایسی ہی رہی اور پاکستان کے اندر زرمبادلہ کے ذخائر ر نہ بڑھے تو ڈالر 200 روپے کو بھی کر سکتا ہے اور اس کی وجہ سے جو پاکستان کے اندر مہنگائی پیدا ہوگی شاید تاریخ میں کبھی بھی نہ ہو اس کے ساتھ اس موجودہ حکومت نے قرضہ لینے کا ایک ریکارڈ قائم کردیا ہے اور صرف گذشتہ چار ماہ میں سولہ ہزار ارب سے زائد کا قرضہ سٹیٹ بینک سے لے چکے ہیں