او آئی سی کی میٹنگ میں عمران خان کا انتظار


عالمی اسلامی تنظیم کی کانفرنس ہونے جارہی ہیں جس میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان شرکت کریں گے اور اس کے ساتھ معاونت کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی موجود ہوں گے اس تنظیم کے ایجنڈے کے مطابق مسلمان ممالک کو پیش مسائل اور خاص کر دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے مختلف طرح کے عوامل کو مدنظر رکھ کر آئندہ کے لیے لائحہ عمل بنایا جائے گا اور خاص کر ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے تناؤ پر بھی بات چیت کی جائے گی جس میں پاکستان کا کردار سب سے اہم ہوگا اس وقت ایران اور سعودی عرب کے درمیان تناؤ اپنے عروج پر ہے اور اس کی وجہ ایران کی یمن میں مداخلت اور حوثی باغیوں کو فنڈنگ دینا اور ایسے ہی گزشتہ دنوں ایران کی جانب سے سعودی عرب کے مختلف مقامات کو نشانہ بنانا ہے جبکہ عراق اور شام کے اندر بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی وار لڑی جارہی ہے اس صورتحال میں پاکستان یا تو ایران کی جانب بڑھے گیا

پھر سعودی عرب کی جانب رہے گا اور دونوں صورتوں میں پاکستان کا نقصان ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر پاکستان ایران کی جانب جھکاؤ دیتا ہے تو سعودی عرب پاکستان کی وہ تمام امدادی فنڈ بند کردے گا کہ جو پاکستان کی معیشت کو سہارا دیتے ہیں اور مستقبل میں بھی پاکستان کو اس کی وجہ سے مختلف طرح کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے اور اگر پاکستان ایران کی جانب جھکنے کی بجائے سعودی عرب کی طرف جاتا ہے اور سعودی عرب کی حمایت کرتا ہے تو اس کے ساتھ پاکستان میں پراکسی وار کو بہت زیادہ ہوجائے گی اور ایران کے شہر پر مختلف تنظیمیں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی اس لئے پاکستان کو چاہیے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان صلح کرائے اور دونوں ممالک کو سمجھانے کی کوشش کریں گے اگر ان دونوں ممالک میں کسی قسم کا تناؤ رہتا ہے تو اس کا نقصان مسلم ممالک کو ہوگا امریکہ اور اسرائیل کو ہرگز نہیں ہوگا اور اس کے ساتھ پاکستان کو چاہیے کہ اپنے اندرونی معاملات کو زیادہ بہتر کرے بنسبت بیرونی ممالک کے معاملات میں پڑنے کے اور چین نے پاکستان کو یہ مشورہ دیا ہے کہ خارجہ پالیسی پر فوکس کب سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ پاکستان کے معیشت پر فوکس کیا جائے اور معاملات کو بہتر کیا جائے اور یہ پاکستان کے مفاد میں ہے