جنرل باجوہ کا اشارہ کس طرف تھا


ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے امریکا ایران کو سبق سکھانے کی دھمکی دیتا ہے اور ایران آگے سے دھمکی دیتا ہے کہ اگر اس کے خلاف کسی قسم کی جارحیت دکھانے کی کوشش کی گئی تو وہ اسرائیل اور امریکہ کے اڈوں کو نشانہ بنائے گا اس کے ساتھ آبنائے ہرمز کو بھی بند کردے گا اس دھمکی کے فورا بعد حالات انتہائی کشیدہ ہو جاتے ہیں امریکہ کے جنگی طیارے مختلف مقامات پر اتر جاتے ہیں ان کی بحری بیڑے بحیرہ عرب میں پہنچ جاتے ہیں اور اس کے ساتھ سعودی عرب میں تیل اور گیس کے ذخائر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور بحیرہ عرب میں تیل لے کر جانے والے آئل ٹینکر سکوبی نشانہ بنایا جاتا ہے اس کے فورا بعد امریکہ کے دفاعی اتاشی کی طرف سے بیان آتا ہے کہ اس کے پیچھے ایران ہے اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ایک مشترکہ فوج کے ذریعے ایران کو سبق سکھانا چاہیے جبکہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بیان آتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا بلکہ ایران کو قابو کرنے کے لیے مختلف طرح کی معاشی ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے

اس کے فورا بعد سعودی عرب کی طرف سے بیان آتا ہے کہ امریکہ کو چاھیے کہ وہ ایران کو سبق ضرور سکھائیں جبکہ مختلف ممالک کے اخبارات اور انٹرنیشنل میڈیا پر یہ خبریں چلنے لگ جاتی ہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو دراصل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مجبور کررہے ہیں کہ وہ ایران کے خلاف کاروائی کریں اور اس پر حملہ کرے لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس وقت ایران اس پوز یشن میں ہر گز نہیں کہ وہ کسی بھی لحاظ سے اسرائیل اور امریکہ کو نقصان پہنچا سکے ان کی معاشی حالت انتہائی خراب ہوچکی ہے جبکہ مسلسل پراکسی وار لڑنے کی وجہ سے ان کی افواج میں وہ سکت نہیں رہی جو پہلے تھی اس کے ساتھ کوشش کی جارہی ہے کہ ایران اور عرب ممالک میں جنگ شروع کر دی جائے لیکن دوست ممالک کے سمجھانے پر عرب ممالک نے ابھی تک ایران کے خلاف کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا کہ جو ایران اور عرب کے درمیان جنگ بھڑکانے کے لئے کافی ہو بلکہ ان کی کوشش ہے کہ امریکہ خود ایران کے خلاف میدان میں اترے اسی لئے بیان سامنے آیا ہے کہ امریکہ کے بحری بیڑے اور افواج کو بحیرہ عرب کی حفاظت کے لیے بلالیا گیا ہے تاکہ ایران کی طرف سے کسی قسم کی جارحیت کے خلاف فورن جواب دیا جاسکے مزید تفصیلات جاننے کے لیے ویڈیو ملاحظہ کیجئے