مشہور کالم نگار منصور آفاق نے اپنے ایک کالم میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو کچھ تجاویز دی ہیں کہ جس کے مطابق پاکستان میں معیشت کو قابو کیا جاسکتا ہے اور ڈالر کی پروان کو روکا جا سکتا ہے انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومت نے ایمنسٹی سکیم تعرف کروائی ہے اگرچہ موجودہ حکومت نے سابقہ حکومتوں میں پیش کیے جانے والے مختلف ایمنسٹی سکیموں کی سخت مخالفت کی تھی لیکن جب ان کو معلوم ہو کہ حکومت چلنا اتنا آسان کام نہیں تو اس لیے انہوں نے خود ہی ایمنسٹی سکیم تعارف کروا کے اپنا تھوکا ہوا واپس چاٹ لیا ان کے مطابق پاکستان کی معیشت بہتر کرنے کے لئے سب سے ضروری ہے کہ مسئلہ کرپشن کا حل کیا جائے جیسے ہی کرپشن کا جن بند ہوجائے گا بوتل میں آجائے گا تو اس کے بعد پاکستان کی معیشت خود بخود ٹھیک ہونا شروع ہو جائے گی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک ایسی وزارت بھی ہونی چاہیے کہ جو لوگوں کے آمدن اور اثاثے کا ریکارڈ رکھیں
اور جو بھی اپنی رکھتا ہوں اور اس کو ثابت بھی نہ کرسکتا ہو تو اس کو فی الفور بلیک منی رکھنے کے جرم میں پکڑا جائے اس کے مکانات کو سرکاری تحویل میں لے کر بیچ دیا جائے اور اس کا سب سے پہلے ابتدا سرکاری ملازمین سے کرنی چاہیے اور خاص کر وہ لوگ کہ جو جرنیل ہے جج ہے یا سیاستدان ہے یا پھر میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں تو ان کے خلاف سے پہلی کاروائی کرنی چاہیے اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی تجویز دی کہ جتنے لوگوں کے بیرونی ممالک جائیداد موجود ہے اور وہ اس کا ثبوت پیش نہیں کرسکتے انہوں نے کیسی ہیں جائیدادیں بنائی تو فی الفور منی لانڈرنگ کا کیس ان پر لگا کر ان کی جائیدادوں قرق کر لینا چاہیے اور سخت سے سخت سزا دینی چاہیےان کا مزید کہنا تھا کہ نئی وزارت قائم کرنا کوئی مشکل کام نہیں بلکہ اس کو وزارت داخلہ کے تحت ہی رک کر کم کیا جاسکتا ہے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک میں جتنے بھی بزنس ہے وہ سب ریکارڈ پر آجائیں گے اور اس کی تفصیل بھی حکومت کے ہاتھ میں آجائے گی اس کے ساتھ ٹیکس کا حصول بھی انتہائی آسان ہو جائے گا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ تقریبا پچاس فیصد لوگوں کے اثاثوں اور آمدن میں فرق کا امکان جس سے ایک بڑی رقم حاصل ہوگی وہ بھی حکومت کو پتہ چل جائے گی اور بلیک منی وائٹ منی میں تبدیل ہو سکتی ہے جبکہ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں اس وقت ریکوڈک میں اتنا وسیع ذخیرہ ذخیرہ سونے کا موجود ہے لیکن پاکستان اس کی طرف بالکل بھی دھیان نہیں دے رہا بلکہ جس کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اسی کمپنی نے پاکستان کو عالمی عدالت میں گھسیٹا اور جرمانہ بھی کیا