پاکستان کی سیاست میں اس وقت ایک خاموشی طاری ہوئی ہے اور یہ وہ خاموشی ہے کہ جو طوفان اٹھنے سے قبل ہوتی ہے اس وقت آصف علی زرداری اور اس کی ٹیم دوسری طرف میاں نواز شریف اور اسکی ٹیم جب کہ مولانا فضل الرحمن مکمل طور پر متحرک دکھائی دے رہے ہیں اور تیاری کی جارہی ہیں کہ ایک ملین مارچ اسلام آباد کی طرف نکالا جائے کہ جس میں تمام جماعتوں کے افراد شامل ہو مولانا فضل الرحمان ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کرپشن کے مقدمات کے خاتمے کے لیے ان سے ہاتھ ملانے کے لیے مکمل طور پر دکھائی دے رہے ہیں جبکہ اگر حکومت کو دیکھا جائے تو اس وقت حکومت کے کئی افراد ایسے ہیں کہ جو عمران خان سے مکمل طور پر نالاں دکھائی دے رہے ہیں
اور ان کے اتحادی بھی حکومت سے الگ ہونے کے لیے سوچ رہے ہیں اس کی وجہ سے عمران خان کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے جب کہ یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے جو عمران خان کو لانے میں انتہائی اہم کردار ادا کر چکے ہیں وہ بھی عمران خان سے نالاں دکھائی دے رہے ہیں اور اس کی وجہ عمران خان کی بے لچک گفتگو اور عمل ہے عمران خان کی بھرپور کوشش ہے کہ ملک کو ایک راستے پر ڈالا جائے تاکہ ترقی ہو کرپشن ختم ہو تمام لوگوں کو انصاف اور تعلیمی کس میں اثر ہو لیکن جب تک یہ نظام ہے جب تک بیوروکریسی ہے جب تک اسٹیبلشمنٹ ہے عمران خان اس میں مکمل طور پر ناکام ہی رہیں گے اور اس کا ایک ہی حل ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو سیاست سے مکمل طور پر ختم کریں بیورو کریسی کو لگام ڈالے اور اس کے ساتھ ایسے افراد کو بھیجو سابقہ حکومتوں میں مختلف مقدمات میں مطلوب ہے اس سے جان چھڑائیں تب جا کر عمران خان کو ایک حقیقی کامیابی مل سکتی ہے