صدارتی نظام کی تردید کیوں ہو رہی ہے


پوری دنیا کے اندر اس وقت دو طرح کے نظام چل رہے ہیں ایک پارلیمانی نظام اور دوسرا صدارتی نظام پارلیمانی نظام میں مختلف نمائندے مختلف جگہوں سے منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں جاتے ہیں اور وہاں پر قانون سازی کرتے ہیں کسی بھی قانون کو پاس کرنے کے لیے بھاری اکثریت درکار ہوتی ہے جبکہ صدارتی نظام میں تمام طاقت ایک شخص کے پاس جمع ہو جاتی ہے اور وہ کسی بھی قسم کے فیصلہ کرنے میں بالکل آزاد ہوتا ہے اگرچہ کچھ ممالک کے اندر صدر کو بھی اپنے فیصلہ نافذ کرنے کے لئے سینٹ سے اجازت لینی پڑتی ہے امریکا کی مثال دیکھنے کے وہاں پر سینیٹ ایک الگ ادارہ ہے کہ جو مستقل طور پر حکومت سازی کے عمل میں مصروف دکھائی دیتا ہے پارلیمانی نظام ہو یا پھر صدارتی نظام دونوں نظام اپنے اندر کچھ خامیاں رکھتے ہیں اور کچھ خوبیاں بھی اس میں موجود ہے لیکن نظام اس وقت کامیاب ہوتا ہے کہ جب اس نظام کے تحت کام کرنے والے افراد ایماندار ہوں اور ملک کے ساتھ مخلص ہو اگر آپ کے ملک کے اندر پارلیمانی نظام رائج ہے اور اسکو دقیانوس نظام کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ کہا جائے کہ اس کی جگہ صدارتی نظام لایا جائے تاکہ صدر کو مستقل طور پر مکمل اختیارات حاصل ہو اور وہ ملک کے بہبود اور فلاح کے لیے کام کریں لیکن اس کے متحد جتنے بھی افراد ہوں وہ اسی پارلیمانی نظام کے ذریعے آنے والے افراد ہو تو پھر بھول جائے کہ ملک کے اندر کسی قسم کی تبدیلی آسکتی ہے پاکستان میں بھی آج کل بحث چل رہی ہے کہ ملک کے اندر صدارتی نظام کو لایا جائے اور اس نعرے کو خوبصورت بنانے کے لئے اسلام کا نام ساتھ میں لگایا جارہا ہے حالانکہ اسلام کے اندر صدارتی اور پارلیمانی نظام کا کوئی تصور ہی نہیں بلکہ اسلام میں صرف اور صرف خلافت کا تصور ہے جو کہ صدارتی اور پارلیمانی نظام سے بالکل مختلف ہے صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام میں اگر دیکھا جائے تو تمام طاقت ان افراد کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ جو منتخب ہوتے ہیں جبکہ خلافت میں طاقت خلیفہ کے بعد سے نہیں ہوتی اور خلیفہ اپنی ذات سے کوئی فیصلہ صادر نہیں کرتا جب تک وہ شریعت کے مطابق نہ ہو

وہاں پر ساری قوت صرف اور صرف اللہ کی ذات کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ قرآن اور احادیث مبارکہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے صادر ہونے والے احکامات کی روشنی میں تمام مسائل کا حل نکالا جاتا ہے پاکستان کے اندر اس پر بہت زیادہ آجکل بحث ہو رہی اور خاص کر سوشل میڈیا پر باقاعدہ منظم طریقے سے اس کو پھیلایا جا رہا ہے پاکستان میں اس سے پہلے بھی صدارتی نظام آ چکے ہیں اور اس کی تباہی سب کے سامنے ہے اور پاکستان میں صدارتی نظام کا مطلب مارشل لا ہوتا ہے عمران خان سے امید ہے کہ وہ پاکستان کے اندر ایک ایسا نظام متعارف کروائیں گے کہ جو ملک کے فلاح اور بہبود کے لئے ہو جس میں انصاف ہو جس میں تعلیم سب کے لئے یکساں ہو جس میں علاج ہر بندے کی دسترس میں ہوں جس میں ہر چیز سستی ہو اور جس میں لوگوں کی عزت نیلام نا ہوتی ہو یہ کیسا سسٹم جس میں امیر غریب سارے برابر ہوں تب جا کر اس ملک کی حالت بدل سکتی ہے ورنہ پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی نظام اس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا