ملک میں عملاً صدارتی نظام نافذہو چکا


موجودہ حکومت کے بارے میں صحافی حضرات بیوروکریسی اور پاکستان کے تمام سیاستدانوں کا اتفاق ہے کہ موجودہ حکومت لائی گئی ہے اس میں ان کی اپنی کسی محنت کا حصہ نہیں ہے اسٹیبلشمنٹ نے باقاعدہ طور پر اس حکومت کو منتخب کیا ہے تاکہ اپنے مقاصد کو حاصل کیا جا سکے لیکن دوسری طرف یہ لوگ عمران خان سے مکمل طور پر غائب ہے کیونکہ عمران خان خود ایک ایماندار شخص ہے اور کرپشن میں ہرگز ملوث نہیں اسی وجہ سے باقی جتنی بھی سیاستدان ہیں وہ ان سے خائف ہے کی کسی وقت بھی کرپشن کی تلوار ان کی گردن پر پڑ سکتی ہے اسی وجہ سے وہ مسلسل پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ہے اور بیانات روزانہ میڈیا واسطے سے آرہے ہیں گزشتہ کئی دنوں سے یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ پاکستان کے اندر ایک نیا صدارتی نظام نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

دراصل پاکستان کے اندر جب بھی صدارتی نظام کی بات کی جاتی ہے تو اس کا بلکل واضح مطلب مارشل لا ہوتا ہے لیکن اس بار اسٹیبلشمنٹ نے تھوڑا سا مختلف طریقے اختیار کیا ہے اور جمہوری طریقے سے آنے والی حکومت ہی کے ذریعے صدارتی نظام لایا جا رہا ہے اس وقت اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے وہ ادارے جو کسی بھی حکومت کیا ریٹ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے وہ ٹیکنوکریٹس کے حوالے کیے گئے ہیں یعنی ایسے افراد کی جو وزیر کے عہدے پر کام کررہے ہیں لیکن انہوں نے الیکشن نہیں لڑا لیکن قومی اسمبلی میں موجود ہے چاہے وہ وزیرداخلہ ہو یا وزیر خزانہ ہو یا پھر سٹیٹ بینک کا گورنر ہو اس کے علاوہ پنجاب کی کابینہ میں بہت زیادہ تبدیلیاں متوقع ہیں اور اس میں بھی ایسے افراد کو موقع دیا جائے گا کہ جو ٹیکنوکریٹس گے. مزید تفصیلات جاننے کے لیے ویڈیو ملاحظہ کیجئے