2019 کے سال کے ابتدائی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی اور اس کی وجہ وہ دہشتگردی کی کروائی تھی کہ جو کشمیر میں بھارتی فوجیوں کو نشانہ بناکر کی گئی اس کا الزام براہ راست پاکستان پر لگایا گیا اور پاکستان کے خلاف جاری ہے دکھانے کی کوشش کی گئی جو ان کو بہت زیادہ مہنگی پڑی اور اپنے جنگی طیاروں کا نقصان برداشت کرنا پڑا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک پائلٹ کی گرفتاری کا صدمہ بھی اٹھانا پڑا جس کے بعد پوری دنیا میں پاکستان کی فوجی صلاحیت کا چرچا ہوا اور بھارت کی فوجی صلاحیت پر سوالات اٹھنا شروع ہوئے کہ اتنی بڑی تعداد اور اتنی زیادہ طاقت میں ہونے کے باوجود پاکستانی طیارے بھارت کی حدود میں داخل ہوکر کروائی کرتے ہیں اور اس کے بعد چلے جاتے ہیں اور بھارت ان کو کچھ بھی بگاڑ نہیں پتا اس تمام جنگ میں پاکستان نے اپنی فضائی حدود بھارت کے لئے مکمل طور پر بند کردیں بھارت پاکستان کے فضائی راستے کا استعمال کرتے ہوئے
سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور ایسے ہی دیگر ممالک کی طرف سفر کرتا رہا لیکن پاکستان کی طرف سے پابندی ہونی کی وجہ سے اب اس کو روز یا پھر سمندری راستے سے گزرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے بھارت طیارے اضافی استعمال کرتے ہیں اور ان کا وقت بھی پہلے سے زیادہ ہوچکا ہے ایک طرف اس سے پاکستان کا نقصان بھی ہو رہا ہے کہ پاکستان بھارت سے اور اس طرح دیگر کمپنیوں سے جو پاکستان کی فضائی حدود کو استعمال کرتے ہوئے بھارت جاتی ہے ان سے پاکستان باقاعدہ سالانہ ٹیکس وصول کرتا ہے جواب پاکستان کو نہیں ملے گا لیکن اس کے دوسری طرف کر دیکھا جائے تو بھارت کو زیادہ نقصان ہو رہا ہے کیونکہ ان کا نہ صرف فیول زیادہ استعمال ہو رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وقت بھی زیادہ درکار ہیں جس کی وجہ سے بھارت اس وقت تلملایا ہوا ہے اور کوشش کررہا ہے کہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر پاکستان کی فضائی حدود کو بھارت کے لیے کھول دیا جائے مزید تفصیلات جاننے کے لیے بھی ملاحظہ کیجیے